کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 386
فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿١٤﴾ (النساء:۱۴)
’’ اور جوکوئی نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی، اور اس کی حدوں کوپامال کرے گا، اسے جہنم کی آگ میں داخل کیا جائے گا، وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہے گا ، اور اس کے لیے ہے رسواکن عذاب۔ ‘‘
گناہ سے دل خراب ہوجائے توپھر انسان ہر گز نہ دنیا میں فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ آخرت میں کوئی صلہ ملے گا ، فرمان الٰہی ہے:
﴿ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ﴿٨٨﴾ إِلَّا مَنْ أَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ﴿٨٩﴾ (الشعراء :۸۸،۸۹)
’’جس دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد، مگر جو صحیح دل کے ساتھ اللہ کے ہاں حاضر ہوا۔‘‘
شاعر کہتا ہے :
رَأَیْتُ الذَّنُوْبَ تُمِیْتُ الْقُلُوْبَ
وَقَدْ یُوَرِّثُ الذُّلَّ إِدْمَانُہَا
وَتَرْکُ الذَّنُوْبِ حِیَاۃُ الْقُلُوْبِ
وَخَیْرٌ لِنَفْسِکَ عِصْیَانُہَا
’’ ہم نے دیکھا ہے کہ گناہ دلوں کومردہ کردیتے ہیں ، اور بیشتر اوقات گناہوں میں مست رہنا ذلت کا سبب بنتا ہے۔ اور گناہ چھوڑنے میں دلوں کی زندگی ہے۔ اور آپ کے نفس کے لیے گناہوں کی نافرمانی کرنا بہتر ہے۔ ‘‘
توبہ واستغفار :
انبیا کے علاوہ کوئی بھی گناہ سے پاک اور معصوم نہیں ہے۔ انسان کو انسان اس لیے کہتے ہیں کہ یہ بھول جانے والا اور بہت جلد مانوس ہونے والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((کُلُّ بَنِيْ آدَمَ خَطَّائٌ ؛وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ۔))[1]
[1] مسند احمد ، ابن ماجہ ،ترمذی/ صحیح۔