کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 382
لوگوں سے میل جول:
انسان فطرتی طور پر اجتماعیت پسند ہے۔ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا۔اس لیے اس فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے کچھ دوست و احباب ہوں ، جن کے ساتھ انس و الفت پیدا ہو۔ یہ ناممکن ہے کہ موجودہ دور میں ایک انسان اس پر ہنگام اور گنجان آباد معاشرہ کا ممبر بھی ہو، اور وہ صرف اللہ والوں کی مجالس تلاش کرتا رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مجلس مطلوب ہے، لیکن عام لوگوں کے ساتھ برتاؤ بھی ایک ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک انسان اپنے ہی نفس کو تمام امور میں کھپاتا رہے ، اور وہ دوسروں سے کوئی مدد نہ لے۔ اور نہ وہ اپنے نفس کا حق ادا کرے اور نہ معاشرے کے حقوق ادا کرے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہماری اس عالی شان اور روشن تاریخ میں بہت عمدہ مثالیں اور رہنمائی موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کفار و مشرکین ،یہود ونصاریٰ کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے۔اور ان کی زندگی ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اگر اچھے لوگ اپنی کٹیا اور گھر تک محدود ہوجائیں گے تو بھلائی کیسے پھیلے گی؟ حدیث میں ہے :
((اَلَّذِيْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلیَ أَذَاہُمْ أَفْضَلُ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِيْ لَا یُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلَی أَذَاہُمْ۔))[1]
’’ جو لوگوں سے میل جول رکھتا ہے، اور ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہے، وہ اس مومن سے بہتر ہے ، جولوگوں سے میل جیل نہیں رکھتا،اور نہ ان کی تکلیف پر صبر کرتا ہے۔‘‘
اس میل جول کا قاعدہ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے ، فرمایا :
((خَالِطِ الْمُؤْمِنَ بِقَلْبِکَ ، وَخَالِطِ الْفَاجِرَ بِخُلْقِکَ۔))
’’ مومن کے ساتھ اپنے دل سے میل جول کیجیے، اور فاجر کے ساتھ حسن اخلاق سے میل جول کیجیے۔ ‘‘
[1] مسند احمد برقم ۲۳۰۹۹؛ الترمذی بدون ذکر الباب ، برقم ۲۵۰۷۔ سنن ابن ماجۃ باب الصبر علی البلاء برقم ۴۰۳۲۔/ صحیح۔