کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 378
فُرُطًا ‎﴿٢٨﴾ (الکہف:۲۸) ’’اور جو لوگ صبح و شام اپنے رب کو پکارتے اور اُس کی خوشنودی کے طالب ہیں اُن کے ساتھ صبر کرتے رہو اور تمہاری نگاہیں ان میں سے (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگی دنیا کے طلبگار ہو جاؤ، اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہنا نہ ماننا۔ ‘‘ انسان کے ہم نشین و ہم مجلس اس کے عادات وکردار کی پہچان ہوتے ہیں ۔ محفل کا یہ اثر اس پر باقی رہتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْکِ ، إِنْ لَمْ یُصِبْکَ مِنْہُ شَيْئٌ أَصَابَکَ مِنْ رِیْحِہٖ ، وَمَثَلُ الْجَلِیْسِ السَّوْئِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْکِیْرِ ، إِنْ لَمْ یُصِبْکَ مِنْ سَوَادِہٖ أَصَابَکَ مِنْ دُخَانِہٖ۔)) [1] ’’ اور اچھی صحبت کی مثال کستوری والے کی ہے، اگر آپ کو اس سے کچھ بھی نہ ملا، تب بھی خوشبو ضرور آپ کو پہنچے گی۔ اور بری مجلس کی مثال بھٹی والے کی ہے ، اگر آپ کو اس کی سیاہی نہ لگی تو دھوئیں سے ضرور تکلیف ہوگی۔‘‘ اور فرمایا: ((اَلرَّجُلُ عُلیَ دِیْنِ خَلِیْلِہٖ ، فَلْیَنْظُرْ أَحَدُکُمْ مَنْ یُخَالِلْ۔))[2] ’’ انسان اپنے ہمراہی کے دین پرہوتا ہے، پس چاہیے کہ وہ دیکھے کس کو ہمراہ کیے ہے ۔‘‘ اس معنی میں دیگر کتب میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ
[1] ابو داؤد باب من یؤمر أن یجالس برقم (۴۸۴۱) صحیح۔ [2] ابو داؤد باب من یؤمر أن یجالس برقم (۴۸۴۱) صحیح۔ سنن الترمذي بدون ذکر الباب برقم (۲۳۷۸)۔ المستدرک للحاکم کتاب البر والصلۃ برقم (۷۳۱۹)۔