کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 376
’’ اپنی اولاد کوجب سات سال کے ہوجائیں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور اگر دس سال کی عمر میں نماز ادا نہ کریں تو ان کوسزا دو ، اور اسی عمر میں ان کو علیحدہ علیحدہ بستر میں سلانا چاہیے ۔‘‘[1] اچھی اخلاقی اور جسمانی تربیت والدین اور کنبے کے سربراہ و سر پرست کی ذمہ داری ہے۔ بڑے بھائی ؛ اور چچا (تایا ) والد کے قائم مقام ہیں ۔ بہن؛ اور خالہ (پھوپھی )جوکہ والدہ کی قائم مقام ہے ان کی ذمہ داری بھی (والدین کے نہ ہونے کی صورت میں ) والدین جیسی ہے۔ والدین نہ ہونے کی صورت میں یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ انہیں قصص انبیاء، سیرتِ نبویؐ ، سیرت صحابہ ، اور واقعاتِ تابعین سے آگاہ کیجیے تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل سکیں ۔ بچوں کی تربیت کرکے آنے والی نسل کو پروان چڑھانا ہے ،اس امت کے مستقبل کو سنوارنا ہے جو عرصہ درازسے حقیقی تبدیلی کی منتظر ہے؛ جوکہ ہماری ذمہ داری ہے ؛اور آنے والی نسلوں کا ہم پر قرض ہے۔ شاعر کہتا ہے : لَا بُدَّ مِنْ صُنْعِ الرِّجَالِ وَمَثَلُہٗ صُنْعُ السَّلاَحِ وَصَنَاعَۃُ الأَبْطَالِ عِلْمٌ قَدْ دَرَاہُ أُوْلُو الصَّلاَحِ مَنْ لَمْ یُلَقِّنْ أَصْلَہٗ مِنْ أَہْلِہٖ فَقَدَ النَّجَاحَ لَا یُصْنَعُ الأَبْطَالُ إِلآّ فِيْ مَسَاجِدِنَا الْفَسَاحِ فِيْ رَوْضَۃِ الْقُرْآنِ فِيْ ظِلِّ الأَحَادِیْثِ الصِّحَاحِ شُعْبٌ بِغَیْرِ عَقِیْدَۃٍ أَوْرَاقٌ یُذْرِیْہِ الرِّیَاحُ مَنْ خَانَ حَيَّ عَلَی الصَّلاَۃِ یَخُوْنُ حَيَّ عَلَی الْکَفَاحِ ’’ لازمی طور پر مردوں کی تیاری ایسے ہو نی چاہیے، جیسے اسلحہ پیدا کرنے کی۔ اور ہیرو پیدا کرنے کا علم با صلاحیت لوگ جانتے ہیں ۔ اور جوکوئی فن کو، اصل اہل فن سے نہیں سیکھتا ، وہ کامیابی سے دور رہتاہے۔ اور ہماری ان کشادہ مسجدوں کے
[1] أبوداؤد باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ برقم(۴۹۵)/ صحیح۔