کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 374
إِذَا مَا خَلَوْتَ بِرِیْبَۃٍ فِيْ ظُلْمَۃٍ وَالنَّفْسَ دَاعِیَۃٌ إِلَی الْطَّغْیَانِ فَاسْتَحْيِ مِنْ نَظْرِ الإِلٰہِ وَقُلْ لَھَا إِنَّ الَّذِيْ خَلَقَ الظَّلاَمَ یَرَانِ ’’ جب اندھیرے میں کسی گناہ کا موقع ملے ، اور نفس تمہیں سرکشی(گناہ) کی دعوت بھی دیتا ہو، تو اللہ کی نظر سے حیا کر ، اور اپنے نفس سے کہہ دے: بے شک جس نے اندھیرے کو پیدا کیا ہے وہ (تجھے)دیکھ رہا ہے ۔‘‘ اصلاح نفس ہی کامیابی کی ضمانت ، اور عروج کی نشانی ہے؛ ورنہ اس جہاں میں کیا کچھ نہیں ، بقول شاعر : عَلَیْکَ بِتَقْوِی اللّٰہِ إِنْ کُنْتَ غَافِلاً وَیَأْتِیْکَ الأَرْزَاقُ مِنْ حَیْثُ لَا تَدْرِي فَکَیْفَ تَخَافُ الْفَقْرَ وَاللّٰہُ رَازِقٌ فَقَدْ رَزَقَ الطَّیْرَ وَالْحُوْتَ فِيْ الْبَحْرِ وَمَنْ ظَنَّ أَنَّ الرِّزْقَ یَأْتِيْ بِقُوَّۃٍ فَمَا أَکَلَ الْعُصْفُورُ شَیْئاً مِنَ النَّسَرِ ’’ اگر تم غافل ہو تو تم پر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا لازم ہے ، تمہارے پاس (تقوی کی بدولت )رزق وہاں سے آئے گا جہاں سے تمہارا گمان بھی نہ ہو۔ اور تم کیسے فقر سے گھبراتے ہو، جبکہ اللہ ہی روزی رساں ہے۔ وہ پرندوں کو اور مچھلی کوسمندر میں روزی دیتاہے۔ اگر کسی کا گمان ہوکہ رزق قوت سے حاصل ہوگی، تو وہ جان لے کہ اگر ایسا ہوتا تو چڑیا کو ایک دانہ بھی نہ ملتا۔ ‘‘ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے کیا گردوں تھا توہے جس کا ٹوٹا ہوا تارا