کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 373
عَیْنٍ؛ قَالَ: فَقَالَ: اقْلِبْہَا عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ فَإِنَّ وَجْہَہٗ لَمْ یَتَعَمَّرْ لِي سَاعَۃً قَطُّ۔))[1] ’’اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی کی:کہ فلاں فلاں بستی کو الٹ دو۔ جبریل نے کہا: یا اللہ ! ان میں تیرا ایسا بندہ بھی ہے جس نے پلک جھپکنے کے برابر بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ پروردگار نے کہا: ہاں ! اس بستی کو اس شخص پر اور اس کے رہنے والوں پر الٹ دو، اس لیے کہ ان بستیوں میں علی الاعلان گناہ ہوتا رہا، مگر اس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی۔‘‘ تہذیب نفس : اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کا مکلف ٹھہرایا ہے، فرمایا : ﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ‎﴿١٤﴾‏ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ ‎﴿١٥﴾‏ (الاعلیٰ) ’’وہ انسان کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا ، اور اپنے رب کا نام یاد کیا اور نماز پڑھتا رہا۔‘‘ انسان کا نفس عام طور پر گناہ کی طرف میلان رکھتا اورگناہ کرنے کا حکم دیتا ہے ،اس لیے بھی نفس کی اصلاح بہت ضروری ہے ، اللہ فرماتے ہیں : ﴿ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ﴾(یوسف:۵۳) ’’بے شک نفس تو گناہ پر ابھارنے والا ہے ہی ، مگر جس پر میرا رب رحم کردے۔‘‘ تقدیم نفس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی اصلاح پر زیادہ قادر اور اس کا پہلا جواب دہ ہے۔ حقیقت میں نفس کی شر پسندی سے انسان گناہوں کے پہاڑ تلے دب جاتا ہے، مگر کامیاب ہے وہ انسان جس نے اپنے نفس پر اپنے خالق کو نگہبان اور محافظ جان لیا ، اور اس کی اصلاح کرلی ،بقول شاعر :
[1] المعجم الأوسط/ضعیف(برقم ۷۶۶۱) ۷؍۳۳۶۔ السلسلۃ الضعیفۃ برقم (۱۹۰۴)۔