کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 367
ترک ِ قرآن پر سزا :
سب سے بڑی رسوا کن اور ذلت آمیزسزا یہ ہوگی کہ قیامت کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کااپنی امت پر قرآن کو پس پشت ڈال دینے کا دعویٰ ہوگا، اور وہ کہیں گے :
﴿ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ (الفرقان:۳۰)
’’ اے میرے رب ! میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔‘‘
واقعہ معراج والی حدیث میں ہے: ’’آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے ، انہوں نے مجھے بیدار کیا ، اور مجھ سے کہا: چلو، میں ان دونوں کے ساتھ چلا گیا۔ ہمارا گزر ایک آدمی پر ہوا وہ لیٹا ہوا تھا ، اور اس کے سر پر ایک آدمی پتھر کی ایک سل لیے کھڑا تھا ، وہ اس سل کو اس کے سر پر گراتا ، جس سے سر کچل جاتا ، اور پتھر آگے لڑھک جاتا ،جب اس کا سر واپس اپنی حالت پر آجاتا ، دوسرا آدمی جاکر وہ پتھر پھر لاتا ، اور اس کے سر پر دے مارتا۔ میں نے ان دونوں سے پوچھا : ’’ یہ دوکون لوگ ہیں ، اور ان کا کیا ماجرا ہے ، انہوں نے کہا: ’’یہ وہ آدمی ہے ، جو قرآن پڑھتا تھا، اور اس پر عمل نہیں کرتا تھا، اور دوسرا آدمی فرض نماز سے سوجاتا تھا۔‘‘
ترکِ قرآن کی بعض شکلیں :
ترک ِ قرآن کی کئی ایک صورتیں ہیں جن کا ذکرکیے بغیر چارہ نہیں ۔
۱: قرآن پر ایمان لانا، اس کا سننا ، اور اس کی طرف میلا ن اور اس کی محبت کا ترک کردینا۔
۲: قرآنی تعلیمات پر عمل کوترک کردینا ،اور اس کے حلال وحرام کردہ امور کی پروا نہ کرنا۔
۳: قرآن کو اپنا حاکم اور رہنما نہ ماننا ، اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اس سے یقین حاصل نہیں ہوتا؛ اور اس کی دلیلیں لفظی ہیں ، ان سے علم حاصل نہیں ہوتا۔
۴: قرآن سے اپنے جسمانی اور روحانی امراض کی شفا حاصل کرنا ترک کردینا،اور غیر سے شفا حاصل کرنا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے شفا بناکر نازل کیا ہے: