کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 366
سورۃ البقرہ کی آخری آیات :
جبریل امین علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف فرماتھے کہ آسمانوں سے ایک آواز سنی۔ جب آسمان کی طرف دیکھا تو کہا :آج آسمان کا وہ دروازہ کھلا ہے جو آج سے پہلے کبھی بھی نہیں کھلا۔ پھر دوبارہ آسمانوں کی طرف دیکھا اور فرمایا : ’’ آج و ہ فرشتہ نازل ہوا ہے جو آج سے پہلے کبھی زمین پر نازل نہیں ہوا۔وہ فرشتہ آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، اور کہا:
((أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ ،أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَہُمَا نَبِيٌمِنْ قَبْلِکَ فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ وَ خُوَاتِیْمُ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْہَا إِلَّا أُعْطَیْتَہٗ۔)) [1]
’’ آپ کو دو نوروں کی خوشخبری ہو جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بھی نبی کو نہیں دیے گئے،وہ ہیں سورت فاتحہ اور بقرہ کی آخری آیات؛ ان میں سے کوئی حرف بھی نہیں پڑھوگے مگر اس کے مطابق دیے جاؤگے۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوتا،جہاں سورت بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہو۔‘‘
حدیث قدسی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
((مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِکْرِيْ عَنْ مَسْأَلَتِيْ أَعْطَیْتُہٗ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِیْنَ۔)) [2]
’’ جس کو قرآن کی تلاوت اورمیرے ذکر کی مشغولیت نے مجھ سے مانگنے سے روک دیا، میں اسے مانگنے والوں سے بہتر دیتا ہوں ۔ ‘‘
[1] صحیح مسلم باب فضل الفاتحۃ وخواتیم سورۃ البقرۃ برقم (۱۹۱۳)۔ المستدرک للحاکم باب أخبار في فضائل القرآن جملۃ برقم (۲۰۵۲)۔سنن النسائی باب فضل فاتحۃ الکتاب برقم (۹۱۲)۔(تفسیر قرطبی)
[2] الترمذی ؍حسن بدون ذکر الباب برقم(۲۹۲۶۔