کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 362
اور فرمایا: ﴿ أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ‎﴿٢٤﴾ (محمد:۲۴) ’’ کیا وہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑ چکے ہیں ۔‘‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر وتفکر کو مومنین کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کے لیے شفا قرار دیا تھا، اور اس میں ہمارے تمام مسائل کا حل تھا ،مگر ہم نے اسے قسموں اور تعویذوں کے لیے خاص کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ ﴾(یونس :۵۷) ’’ تحقیق تمہارے پاس آچکی ہے تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور دل کی بیماریوں کی شفا ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ۔)) [1] ’’ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ ‘‘ شاعر کہتا ہے : کَلَامُ اللّٰہِ رَبِيْ ذِيْ الْجَلاَلِ یُؤَانِسُنِيْ بِسِاجِیَّۃِ الْلِیَالِيْ إِذَا کَانَ الإِلٰہُ مَعِيْ أُنِیْسِيْ وَیَھْجِرُنِيْ الْجَلِیْسُ فَلَا أُبَالِيْ ’’یہ میرے رب اللہ بڑے جلال والے کا کلام ہے؛ جو میرے لیے وحشت کی راتوں میں مونس وغمخوار ہے۔ جب اللہ میرے ساتھ میرا مونس ہو، اگر میرے ہم نشین مجھے چھوڑ بھی دیں ، تومجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ ‘‘
[1] رواہ البخاری باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ برقم ۵۰۲۷۔