کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 357
((وَإِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضاً بِمَا یَصْنَعُ، وَإِنَّ الْعَالِمَ یَسْتَغْفِرُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتّٰی الْحِیْتَانُ فِيْ الْمَائِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ ،وَإِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَائِ، وَإِنَّ الأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَاراً وَّلَا دِرْھَماً ، وَإِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ ، فَمَنْ أَخَذَہٗ أَخَذَ بِحَظٍ وَّافِرٍ۔))[1] ’’ اور بے شک فرشتے طالب علم کے فعل سے رضامندی کی وجہ سے اس کی راہوں میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں ،اور بے شک عالم کے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے ، اور جو کچھ زمینوں میں ہے سب مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، یہاں تک کہ مچھلیاں سمندر میں اس کے لیے دعا کرتی ہیں ۔ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جیسے چاند کی فضیلت باقی تمام ستاروں پر، اور بے شک علما ء انبیاء کے وارث ہیں ۔ انبیاء وراثت میں نہ تو درہم چھوڑتے ہیں ، اور نہ دینار ،انہوں نے تو صرف علم کو اپنے بعد وراثت میں چھوڑا ہے۔ جس نے علم حاصل کیا اس نے بہت بڑانصیب (سرمایہ) پا لیا۔ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا : (( أَنْ تَغْدُوْ فَتَعَلَّمَ آیَۃً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ خَیْرٌ لَّکَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَۃَ رَکْعَۃٍ۔)) [2] ’’ یہ کہ تم صبح کو جاکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے ایک آیت کا علم حاصل کرو، یہ تمہارے لیے سورکعت نفل نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
[1] ابوداود باب الحث علی طلب العلم بررقم ۳۶۴۳۔ ابن ماجۃ باب فضل العلماء و الحث علی طلب العلم برقم ۲۲۳۔ الترمذی باب فضل الفقہ علی العبادۃ برقم ۲۶۸۲۔ [2] ابن ماجۃ باب فضل من تعلم القرآن و علمہ برقم ۲۱۹۔ ضعیف؛ مصنف عبد الرزاق باب تعلیم القرآن و فضلہ برقم ۵۹۹۲۔