کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 347
کاسبب اور مسافر کے لیے فائدہ کی چیز بنایا ہے۔‘‘ حالی نے اس کو کتنے ہی حسین انداز میں قلم بند کیا ہے : پالتا ہے بیج کومٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار؟ خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہء گندم کی جیب موسموں کوکس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب ؟ قدرت کی نیرنگیوں کے واقعات آئے روز اخبارات ، رسائل اور دیگر ذرائع سے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں جن پر غور وفکر و تدبر انسان پر ہدایت کی راہیں کھول دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ عبد الحمیدکشک رحمہ اللہ کا ہے۔ جو ایک نابینا عالم اور بیباک خطیب تھے۔ ایک روز منبر پر چڑھے اور جیب سے کھجور کا ایک چھلکا نکالا؛ جس پر بہت ہی خوبصورت کوفی رسم الخط میں قدرتی طور پر لفظ ’’اللہ‘‘ موٹا لکھا ہوا تھا ، لوگوں کو دکھایا، اور یہ شعر پڑھ کر خودبھی روئے اور حاضرین کو بھی رُلادیا: أُنْظُرْ لِتِلْکَ الشَّجَرَۃِ ذَاتَ الْغَصُوْنِ النَّظَرَۃِ مَنْ ذَا الَّذِيْ أَنْبَتَہَا وَزَانَہَا بِالْخَضِرَۃِ ذَاکَ ھُوَ اللّٰہُ الَّذِيْ قُدْرَتُہٗ مُقْتَدِرَۃٌ ’’ اس ٹہنیوں والے سر سبز درخت کو دیکھئے۔ اس کو کس نے پیدا کیا اور ہریالی سے مزین کردیا ، وہ وہی اللہ ہے جس کی قدرت ہر ایک پر کار گر ہے ۔‘‘ کسی اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے : گلشن میں پھروں کہ سیرِ صحرا دیکھوں یا معدن و کوہ ودشت و دریا دیکھوں