کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 345
لوگوں کی حالت دیکھ کر غور وفکر کرنا چاہیے کہ ایک ہی والد کے دو بیٹے ہیں ، دونوں کی شکل و طبیعت، مزاج وعمل میں فرق کے علاوہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بہت زیادہ امیر وکبیر ہوتا ہے ، اور دوسرا دَر دَر کافقیر: کسی کو تاج سلطانی کسی کو دھکے در در کے میرے مولا تیری مرضی جدھر چاہے ادھر کردے کبھی اس سیر وتفریح میں یہ غور کیا کہ بارش اور برف پہاڑوں پر برستی ہے ، یہ مشقت وہاں کے لوگ سہتے ہیں ، مگر سارا سال پگھل پگھل کر دریاؤں کی صورت میں میدانی علاقوں میں پہنچ کر وہاں کی زمین سیراب کرتی ہے، غلے اگتے ہیں ، اور ملکوں میں پھیل جاتے ہیں ، اس طرح سب کی روزی کا بندو بست اللہ کرتے ہیں ۔ اہل عقل کو یہ نظامِ الٰہی اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ ان نعمتوں کو غلط استعمال نہ کیجیے؛ اگر اللہ چاہے تو اپنی یہ نعمتیں چھین بھی سکتا ہے۔ اس فرصت کو غنیمت جان کر تیاری کرو، اور اللہ کا شکر ادا کرو جس کے یہ انعامات ہیں ۔ بقول شاعر: تَرَحِلْ عَنِ الدُّنْیَا بِزَادٍ مِنَ التُّقٰی فَعُمْرُکَ أَیَّامٌ تُعَدُّ قَلاَئِلُ ’’اس دنیا سے کوچ کرتے ہوئے تقویٰ کا زاد راہ لے لو، آپ کی زندگی کے گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں ۔ ‘‘ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش اور ان تمام مراحل کااجمالاً ذکر کیا جن سے انسان نطفہ سے لے کر موت تک گزرتا ہے۔ اور ان پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی ، کہ جب یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ، اور اگر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ان کو بدل ڈالے تو انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں کہ وہ اس کا متبادل پیش کر سکے ، یا اس تبدیلی کو روک سکے۔ اگر انسان اتنا بے بس ہے تو چاہیے کہ وہ ایک غالب قوت والے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتے ہوئے اپنے تمام امور اس کے سپرد کردے ، اور اس اللہ کا مطیع و فرمانبردار ہوجائے ،ارشاد الٰہی ہے :