کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 341
کی قدرت کی نشانیوں میں غور وفکر کے مل جائیں ، تو ان کی کیا قیمت ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان پرسب سے پہلا واجب کلمۂ توحید کا اقرار اور اللہ پر ایمان لانا ہے۔ اور اس کے بعد کائنات میں غور وفکر کرے تاکہ اس کا ایمان مضبوط اور دل مطمئن ہو۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کفار پر سختی سے رد کیا ہے کہ ان کے کان، آنکھیں ، اوردل ان کو کچھ بھی کام نہ آئے ، کیونکہ انہوں نے ان سے قدرتِ الٰہی کی عظمتوں کا پتہ لگانے کا کام کبھی نہیں لیا۔ فرمایا :
﴿ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ﴾(الاعراف:۱۷۹)
’’ ان کے دل ایسے ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں ، اور آنکھیں ایسی ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں ، اور کان ایسے ہیں جن سے وہ سنتے نہیں ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نشانیوں پر چند منٹ کے لیے غور وفکر کرنا نہایت کار آمد اور نفع بخش ہوسکتا ہے۔ مصروف ترین ایام کی گردش اور ان کے پر تکان اعمال میں انسان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ زمین وآسمان کی پیدائش ، اس کے نظام ،خود انسان کی پیدائش اس کے آغاز، اور ہر زندہ چیز کے انجام پر غور وفکر کرے۔ انسان کے لیے عبرت کا ایک موقف اور موقع ضرور ہونا چاہیے۔ یہ اتنی بڑی کائنات اور اس میں موجود مخلوقات اور پھر کائنات کی ہر ایک چیزخالق حقیقی وجود اور اس کی توحید کی گواہ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے مقصدپیدا نہیں کیا۔ ان چیزوں کو دیکھنے والے کے دل میں خالق کی عظمت و کبریائی اور قدرت و حکمت کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ جس کے سامنے انسان سر تسلیم خم کر تا ہے ، اور اس کے ساتھ اپنی لو لگانے کے لیے جدوجہد کرتاہے۔کیونکہ اب انسان کی عقل سے جہالت کے پردے چھٹ جاتے ہیں ، اور فطرت سلیم خالق کی عظمت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس کے سامنے اپنے عجزونیازمندی اور اس کی جناب میں اپنی حاجت مندی کا اظہار کرنے کے لیے بے بس وبے چین ہوجاتی ہے۔ ایسے سفر کے قصد میں مختلف بستیوں کا