کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 34
کی تالیفات ہوں ، اورصرف ٹھوس بات ہی نقل کی جائے۔ اور ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس میں زبان کا انداز آسان رہے مشکل الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔ چونکہ یہ کتاب فراغت ِ وقت کے حوالے سے ہے۔ دورِ حاضر میں معاملہ صرف وقت کے اعتبار سے فراغت کا ہی نہیں رہ گیا بلکہ معاملہ اس سے آگے بڑھ کر فراغت ِ نفس ، فراغت ِ قلب ، فراغت ِ اخلاقیات و مبادیات اور سنجیدہ اہداف یا اغراض و مقاصد سے بھی فراغت و پہلو تہی تک پہنچ گیا ہے۔ فراغت کا مسئلہ زندگی میں تہذیب ِجدید کے کھوکھلے پن کی وجہ سے زیادہ زور پکڑ گیا ہے ،اور اس کے نقصانات پہلے کی نسبت کہیں بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔ فراغت انسان کو اس زعم میں مبتلا کر دیتی ہے کہ اس کا اسے کوئی بھی فائدہ نہیں ہے ، وہ معاشرے کا ایک عضو معطل ہے۔ فارغ انسان اپنے کسی کام کے نتیجہ خیز اور ثمر آور ہونے کی توقع نہیں رکھتا ، اس کے سامنے زندگی کا کوئی آدرش اور نصب العین نہیں ہوتا، اور جس زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو ، بھلا وہ زندگی بھی کیا زندگی ہے ؟ فراغت ایک شیطانی وسیلہ ہے جس کے ذریعہ وہ انسان کو مختلف وسوسوں میں مبتلا کرتا رہتا ہے ۔ وہ انسان کی جنسی خواہشات میں اشتعال پیدا کرتا اور انہیں حرکت دیتا اور خطرناک نفسیاتی اندیشوں میں ڈال دیتا ہے۔ فراغت ، فکرو عقل اور جسمانی قوتوں کے لیے ایک قاتل بیماری ہے کیونکہ نفس کے لیے حرکت و عمل ضروری ہے اور جب ایسا نہ ہو گا تو عقل و ذہن کند اور دماغ ماؤف ہوجائے گا ، حرکت ِ نفس کمزور پڑ جائے گی اور دل پر غلط افکار کا تسلط ہوجائے گا۔ بیکار انسان بآسانی شیطانی ہتھکنڈوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات اورسماجی علوم کے علماء اس بات کے گواہ ہیں کہ جرائم اوراخلاقی مسائل کا سبب کسی بھی جگہ اور کسی بھی زمانے میں فراغت کا زیادہ ہونا ہے۔ نوجوان طبقہ فراغت ِ وقت سے نجات کے لیے سڑکوں اور بازاروں میں بلاوجہ گھومنے پھرنے کو تفریح سے تعبیر کرتاہے۔ اس طرح یہ لوگ نہ صرف اپنا