کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 337
کمال ایمان کی نشانی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ أَعْطٰی لِلّٰہِ، وَمَنَعَ لِلّٰہِ، وَأَحَبَّ فِيْ اللّٰہِ، وَأَبْغَضَ فِيْ اللّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِیْمَانَ۔)) [1]
’’جو اللہ کے لیے کسی کوکچھ دے، اور اللہ کے لیے ہی روک لے، اور جو اللہ کے لیے ہی محبت کرے، اور اللہ کے لیے ہی بغض رکھے، تحقیق اس کاایمان مکمل ہوگیا۔ ‘‘
کدورت کب جگہ پاتی ہے دل میں صاف طینت کے
نہ دیکھا گرد کو جمتے کبھی دریا کے دامن پر
پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک :
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ ﴾(النسآء:۳۶)
’’ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قریبی رشتہ داروں ،اور یتیموں کے ساتھ،اور قرابت کے ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ ، اور پہلو کے ساتھی کے ساتھ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا زَالَ جِبْرِیْلُ یُوْصِیْنِيْ بِالْجَارِ حَتّیٰ ظَنَنْتُ أَنَّہٗ سَیُوَرِّثُہٗ۔))[2]
’’جبریل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے متعلق وصیت کرتے رہے حتی کہ میں نے گمان کیا کہ اسے وارث بنا دیا جائے گا۔‘‘
[1] صحیح الجامع: ۵۹۶۵۔المستدرک علی الصحیحین ؛ کتاب النکاح؛ ح:۲۶۲۴۔سنن أبی داؤد،کتاب السنۃ ، باب: الدلیل علی زیادۃ الإیمان و نقصانہ ، ح: ۴۰۸۲۔ سنن الترمذي ، کتاب الذبائح ، أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق و الورع عن رسول اللہ ﷺ ؛ ح: ۲۵۰۵۔
[2] متفق علیہ البخاری باب الوصیۃ بالجار برقم ۵۶۶۸۔ مسلم فی البر والصلۃ والآداب باب الوصیۃ بالجار والإحسان إلیہ رقم ۲۶۲۴۔