کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 334
يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾ (الاسراء:۲۳تا۲۴)
’’اور آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا،اور والدین کے ساتھ احسان کرنا،اگر تیری موجودگی میں ان میں سے کوئی ایک ،یا یہ دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،اور نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا ،بلکہ ان کے ساتھ ادب اور احترام سے بات چیت کرنا۔اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا،اور دعا کرتے رہنا کہ اے ہمارے رب : ان پر ایسے رحم کر جیسا انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘
رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعَقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ۔))[1]
’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی۔ ‘‘
والدین کی خدمت دنیا میں برکت اور رحمت کے حصول کا سبب ہے، سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ یَزِیْدُ عُمْرَ الرَّجُلِ بِبِرَّہٖ وَالِدَیْہِ۔)) (مشکوٰۃ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ انسان کی عمر اس کے والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کی وجہ سے بڑھاتے ہیں ۔‘‘
٭ صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ اچھے سلوک کے بدلہ میں اچھا سلوک کیا جائے ، اور برا سلوک کرنے پر دوری اختیار کی جائے، بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ جو آپ سے قطع تعلقی کرے
[1] البخاری باب الیمین الغموس برقم ۶۲۹۸ ۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم باب الإیمان والنذور برقم ۷۸۰۸۔ جامع الترمذي باب عقوق الوالدین برقم ۱۹۰۱۔