کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 333
تیرا پسینہ ہے عطر آگیں تیرا تکلم ہے نشاط افزا
تیرے شگوفوں پہ ہورہی ہے نثار مشکِ ختن کی خوشبو
ہزار کلیاں چٹک چٹک کربصد مسرت یہ کہہ رہی ہیں
کہاں یہ نفحاتِ عود و عنبر کہاں وہ تیرے چمن کی خوشبو
یہ بہتر ین موقع ہے کہ ہم غور کریں کہ ہماری خواہشات کس حد تک تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت ہیں ؟ کہیں بیکاری اور بے روزگاری کے غم ،فراغت کی خوشی اور کام کی ذمہ داری نبھانے میں ہم سے حدود شریعت کی پامالی تو نہیں ہورہی؟
صلہ رحمی :
انسان پر واجب بڑے اور اہم ترین حقوق خونی رشتہ داروں کے ہیں ۔ جن کا ادا نہ کرنا قطع رحمی ہے۔یہ ایسا جرم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زمین میں فساد پھیلانے سے تعبیر کیا ہے؛ فرمایا:
﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴿٢٢﴾ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ﴿٢٣﴾ (محمد:۲۲)
’’ تم سے بعید نہیں کہ اگر تمہیں استقرار مل جائے تو تم زمین میں فساد بپا کرو، اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہے ،اوران کو سماعت سے محروم کردیا اور ان کی آنکھو ں کی روشنی چھین لی ہے۔ ‘‘
والدین اوراہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک ؛ بڑوں کا ادب ؛ اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت؛ مریض کی عیادت؛ پریشان حال سے تعزیت؛ اور قطع رحمی والے کے ساتھ رابطہ بڑھانا اسلام کی سنہری تعلیمات میں سے ہیں ۔ اس سلوک کے سب سے پہلے مستحق ہمارے والدین ہیں ۔حقوق اللہ کے بعد سب سے بڑا حق ان کا ہے ،فرمان الٰہی ہے :
﴿ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا