کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 331
بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾ (الانعام:۱۵۳)
’’ اور یہ دین میرا سیدھا راستہ ہے اس پر چلو ، اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی ، تمہیں اس چیز کی وصیت ( یعنی تاکیدی حکم )کی جاتی ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔ ‘‘
اس سے یہ مقصود نہیں کہ فراغت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ان کی اطاعت کی جائے ، اور فراغت ختم تو یہ محبت اور اطاعت بھی ختم۔ نہیں ہر گز نہیں ؛ بلکہ ان اوقات میں محبت کے طریقے، آداب اور فضائل سیکھے جائیں ، ان کاموں کا خود کو پکا عادی بنایا جائے؛ اور آنے والے مرحلہ عمل میں اس کو اپنی عملی زندگی میں نافذکیا جائے؛ تاکہ جان چلی جائے ، مگر یہ محبت ہاتھ سے نہ جائے ، اور یہی کامیابی کا اصل راز ہے، اس محبت میں عالم یہ ہو کہ :
حاصلِ عمر نثار سرِ یارے کردم شادم
از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم شادم
اور بقول اردو شاعر کے :
جان ہی دے دی آج ہم نے پائے یار پر
عمر بھر کی بیقراری کو قرار آہی گیا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّي۔))[1]
’’جو کوئی میری سنت سے اعراض برتے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ‘‘
اس محبت کی ظاہری نشانی بھی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی، فرمایا:
((وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنُ ھَوَاہٗ تَبْعاً لِّمَا جِئْتُ بِہٖ۔))
[1] بخاری باب الترغیب في النکاح برقم ۴۷۷۶، مسلم باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ إلیہ برقم ۳۴۶۹۔