کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 33
اور دیگر تمام متعاون اور کاتب لوگ اپنی ذمہ داری ادا کرکے عنداللہ سرخروہوجائیں ؛ یہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
جب میں نے وقت کے بارے میں چند ایک پمفلٹ پڑھے تودل میں خیال پیدا ہواکہ اردو میں بھی کچھ معقول انداز میں مواد جمع کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جو اردو کی کتابیں میرے مطالعہ میں آئیں ان میں زیادہ اہم ابن الحسن عباسی حفظہ اللہ؛ رفیق شعبہ تصنیف جامعہ فاروقیہ کراچی، کی کتاب ’’ متاع وقت اور کاروان اہل علم ‘‘ اور حضرت مولانا عبدالرؤف رحمانی صاحب رحمہ اللہ جھنڈا نگری کی کتاب ’’ العلم والعلما ء‘‘ تھیں ۔ہر چند کہ دونوں کتابیں منجھے ہوئے معروف اور قلم کار علمائے کرام کی شاہکار تصانیف ہیں ، اوران پر بڑے بڑے علما کرام نے انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا ہے ۔حقیقت میں دونوں کتابیں اس دعا کی مستحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو مصنّفین کے نامہ اعمال میں اس جگہ پر شامل کرلے جب اس کی انتہائی سخت ضرورت ہوگی، اور ان علما کرام کی باقیات صالحات میں سے بنادے۔ مگر جو چیز ان کے بعد اس کتاب کی تصنیف اور جمع کرنے کا سبب بنی وہ ایک نکتہ تھا کہ ان کتب میں اگر چہ وقت کے مفید استعمال اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور ترغیب موجود ہے۔ اور اس سلسلہ میں علمائے کرام کے روشن اور بصیرت افروز واقعات اربابِ عقل کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں ؛ مگر یہ کتب مسئلہ کا پوری طرح احاطہ نہیں کرسکتی تھیں ۔کیونکہ ان میں وقت کا اداری نظام اوران عناصر کا بیان نہیں ہے جو وقت سے استفادہ کرنے کے لیے ہمارے لیے رہنما کتاب ثابت ہوسکے۔ اس کتاب میں میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان عام عناصر کا اجمالی اورمختصر خاکہ بیان کیا جائے جن کی وجہ سے ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے ؛ اور پھر ان کے مضراثرات بھی بیان کردیے جائیں ،نیز وقت سے فائدہ اٹھانے میں مددگارچیزوں اور معاصی کے مقابل میں متبادل امور بھی ذکر کردیے جائیں ۔
اس کتاب کی تیاری میں کم از کم ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں کوکھنگالنا پڑا ہے۔جن میں نوے فیصدکتابیں عربی زبان میں تھیں ۔اور یہ بھی خیال رکھا گیا ہے کہ یہ کتب ِمآخذ ثقہ اہل علم