کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 326
کے متعلق منقول ہے کہ آخری وقت میں لوگ ان سے ملنے کے لیے گئے تو ان کو نماز کی حالت میں پایا۔ ان سے جب پوچھاگیا کہ آپ اس قدر تکلیف کی حالت میں بھی اتنی پر مشقت عبادت کرتے ہیں آخر کیوں ؟تو فرمانے لگے : اب نامہ اعمال بند ہونے کا وقت آگیا ہے،اس لیے آخری عمل نماز کو بنارہے ہیں ۔اگر انسان کو یہ یقین کامل ہو جائے کہ مرنے کے بعد تمام اعمال منقطع ہو جائیں گے ، تو انسان کبھی بھی عمل سے منہ نہ موڑے۔ کیونکہ آخرت کی زندگی تو بنتی ہی عمل سے ہے:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
روزہ رکھنا :
فرمان الٰہی ہے:
﴿ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللّٰهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللّٰهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٣٥﴾ (الاحزاب:۳۵)
’’ روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں ، اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور عورتیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اللہ نے روزہ دار کے جنت میں داخل ہونے کے لیے خاص دروازہ بنا رکھا ہے جس سے روزہ دار کے علاوہ کوئی بھی داخل نہ ہوگا۔ سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((إِنَّ فِيْ الْجَنَّۃِ بَاباً یُقَالُ لَہٗ الرِیَّانُ، یَدْخُلُ مِنْہُ الصَّائِمُوْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَا یَدْخُلُ مِنْہُ أًحَدٌ غَیْرُہُمْ، وَیُقَالُ: أَیْنَ الصَّائِمُوْنَ ؟ فَیَقُوْمُوْنَ،لَا یَدْخُلُ مِنْہُ أَحَدٌ غَیْرُہُمْ ،فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ