کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 32
یہ در اصل افراد سے بڑھ کر اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کام کے لیے کمربستہ رہتیں ۔ موجودہ دور میں اگر بیسیووں اسلامی ممالک میں کوئی ملک حکومتی سطح پر ، اور پوری حکو متی مشینری کے ساتھ یہ فریضہ انجام دے رہا ہے تووہ خداداد اسلامی مملکت سعودی عرب ہے ۔
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور سے ہی دامے درمے سخنے یہ کام ہو رہا تھا ؛ لیکن شاہ فہد رحمہ اللہ کے دور میں اس کام میں انقلابی تبدیلیاں اور اصلاحات ہوئیں ۔ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت اور غیر مسلموں کو دعوت اسلام دینے کیلئے ملک کے اندر اور باہر ادارے قائم کیے گئے۔ اور اس نام سے ایک وزارت ’’وزارۃ الشئون الإسلإمیۃ والأوقاف والدعوۃ و الإرشاد ‘‘ کے نام سے قائم کی گئی ہے۔ جس کا کام بیرون ملک دعاۃ کاتعین،اوراندورن ملک ان تمام اداروں اور مکاتب کی نگرانی ہے جو اس کام میں حصہ لے رہے ہیں ۔ بلکہ انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ اب تمام ہسپتالوں ، جیلوں اور بڑی کمپنیوں میں ان اداروں کے نمائندہ آفس ’’مندوبیہ دعوت وارشاد‘‘ کے نام سے کھولے جارہے ہیں ۔
’’ أمر بالمعروف والنہی عن المنکر ‘‘ کا ادارہ بھی پوری طرح اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ الغرض حکومتی سطح پر ہرطرح کے اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ اوران مکاتب سے جو خیر اور برکات کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔ ملک کے اندر اور باہر ایک دعوتی انقلاب آرہا ہے۔ اور تقریباً یہی وجہ ہے کہ مغرب اب شور مچارہا ہے کہ بنیاد پرستی کی شاخیں دنیا میں کہیں بھی ہوں ، اس کی جڑیں ’’ سعودی عرب‘‘ میں ہیں ۔
الحمد للہ ! ہم بھی اس پر فخر کرسکتے ہیں کہ اب بھی کوئی ملک ایسا ہے جس نے اس گئے گزرے دور میں بھی اس کام کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ اگرچہ ابھی اس کام میں کمی ہونے میں شک نہیں ۔ ان ہی دعوتی اور تعلیمی مراکز میں سے ایک مرکز’’ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ‘‘ ہے۔ جہاں کے فارغ التحصیل طلبہ ہر سطح پر اس کام میں اپنا فریضہ حسب استطاعت ادا کر رہے ہیں ۔
دعوت وارشاد کے سلسلہ میں پورے ملک کے مکاتب، جالیات اور دیگر ادارے سارا سال دعوتی لٹریچر چھاپ کر مفت تقسیم کرتے رہتے ہیں ، تاکہ لکھنے؛ پڑھنے اور چھپوانے والے