کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 319
ذکر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے الفاظ اورطریقہ کار مسنون ہو تب اجر ملے گا ورنہ نہیں ۔
تیسرا انعام : اللہ کا اپنے بندے کو یاد رکھنا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ ﴿١٥٢﴾ (البقرہ: ۱۵۲)
’’ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، میرا شکر ادا کرو، اور ناشکروں میں سے نہ ہوجاؤ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب کچھ لوگ کسی جگہ جمع ہوکر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو آسمان سے فرشتہ اعلان کرتا ہے:’’ اس طرح اٹھو کہ جیسے تمہاری مغفرت کردی گئی ہو؛ اور یقیناً تمہارے گناہ نیکیوں سے بدل دیے گئے ہیں ۔‘‘[1]
صحابہ کرامe اس وصیت کو سمجھے ،اور اس کے اعلیٰ اور قیمتی معانی میں فقاہت حاصل کی۔حتی کہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سے کہا گیا :’’ ایک آدمی اگر سو غلام آزاد کرتا ہے،( تو اس کا کتنا بڑا اجر ہے)؟ فرمایا:’’ سو غلام کسی آدمی کے مال میں بہت بڑی چیزہے۔لیکن اس سے افضل یہ ہے کہ انسان دن رات ایمان کو لازم پکڑے رہے ، اور تم میں سے کسی ایک کی زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر وتازہ رہے۔‘‘ (احمد/ الزھد)
کسی بزرگ نے فرمایا :’’جن لوگوں کی زبانیں ذکر الٰہی سے تر رہتی ہیں ، جب ان میں سے کوئی جنت میں جائے گا تو ہنس رہا ہوگا۔‘‘بقول خواجہ صاحب کہ وہ فرماتے ہیں :
میری زیست کا کیا حال پوچھتے ہو
نہ پیری نہ طفلی نہ اس میں جوانی
جو چند ساعتیں یاد دلبر میں گزریں
وہی ہے وہی میری کل زندگانی
[1] احمد برقم ۱۲۴۵۳/ صحیح۔ الأحادیث المختارۃ للضیاء المقدسي برقم ۲۶۷۸۔ الجامع لشعب الإیمان برقم ۶۹۴، وزاد :’’ قد بدّلت سئیاتکم حسنات۔‘‘