کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 318
لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘ دوسرا انعام: زندگی میں برکت اور اس کو کار آمد بنایا جاناہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَثَلُ الَّذِيْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِيْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلَ الْحَيِّ وَ الْمَیِتِ۔))[1] ’’ بے شک ان لوگوں کی مثال جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور جو اللہ کا ذکر نہیں کرتے ، زندہ اور مردہ کی ہے۔ ‘‘ بندے کا اللہ تعالیٰ کی محبت میں اتنا ہی حصہ ہے جس قدر اس کا حصہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے ، اور میرے ذکر سے اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں ۔ ‘‘[2] اپنے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :’’تمہاری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ترو تازہ رہے۔‘‘[3] اس ذکر کا اثر انسان کی ظاہری زندگی پر بھی ہونا چاہیے۔ قول اور عمل میں مطابقت سے ہی کامیابی ملتی ہے۔ بقول مولانا الطاف حسین حالی ؔ: یاد اس کی یہاں وردِ مدام اپنا ہے خالی نہ ہو جوکبھی وہ جام اپنا ہے کس طرح نہ لیجیے کہ ہے نام اس کا کس طرح نہ کیجیے کہ کام اپنا ہے
[1] البخاری باب فضل ذکر اللہ عزوجل برقم ۶۴۰۷۔ مسلم باب استحباب صلاۃ النافلۃ في بیتہ برقم ۱۸۵۹۔ [2] صحیح/ المستدرک علی الصحیحین کتاب الدعاء و التکبیر والتہلیل والتسبیح برقم ۱۸۲۴۔ الجامع لشعب الإیمان فصل في إدامۃ ذکر اللہ برقم ۵۰۹۔ [3] صحیح ، ابن ماجہ۔ المستدرک علی الصحیحین کتاب الدعاء و التکبیر والتہلیل والتسبیح برقم ۱۸۲۲۔الترمذي فضل الذکر ،برقم ۳۳۷۵۔