کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 315
انتہائی دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ میچ دیکھنے اور کھیلنے میں ، فلم بینی اور رات کو گپ شپ میں وقت ضائع کیا جاتاہے کہ اکثر نمازیں بالکل ہی رہ جاتی ہیں ، چہ جائے کہ مسجد میں باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ لہٰذا فارغ اوقات کا ہر گز مطلب یہ نہ لیا جائے کہ نماز کے قیام، حقوق کی ادائیگی، اور دیگر تمام کاموں سے بھی چھٹی مل گئی۔ حالانکہ اللہ کی محبت کا تقاضا اس کی یاد کی کثرت ہے ؛
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
٭ کوئی شک نہیں کہ ایسے فارغ اوقات میں کھیل کود اور تفریح کے لیے سفرکیے جاتے ہیں ؛ یہ تفریح طبع نفس کا حق ہے ،جیسا کہ سیّدناحضرت علی رضی اللہ عنہ کے فرمان میں گزر چکا؛ مگر یہ بھول نہ جائیے کہ وہ کھیل ہر گز نہ کھیلیں جو زندگی کا ہی کھیل ہو ؛ جس میں ہر اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو جائے ،اور اللہ کی ناراضگی مول لی جاتی ہو، اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ ان امور میں ضائع ہوتا ہو۔ مثال کے طور پر شطرنج، نرد ، ڈرافٹ بورڈ اور دیگر ان ڈور اور آوٹ ڈور گیمز جن میں وقت کا بے جا ضیاع ہوتا ہے؛مثلاً: رات گئے تک ٹیبل ٹینس ، کرکٹ، کبڈی، ہاکی اور دیگر میچ کھیلنا اور ان کے تماشائی بننا۔ ہر ایک کام کو اس کی حدود میں کیا جائے توبہتر ہے۔
ایسے ہی مختلف الیکٹرونکس اور کمپیوٹر گیمز بھی وقت کی تباہی کا سبب ہیں ۔ بعض اوقات ان گیمز کے عادی کو حالات تو اجازت نہیں دیتے ، مگر وہ دوستوں کے ساتھ خوش طبعی کے لیے گھریلو امور سے لاپروائی برتتے ہوئے ان کاموں میں وقت ضائع کرتا ہے؛ جس کا نتیجہ گھریلو ناچاقی، خاندانی تباہی، معاشرتی اور سماجی تنزل و ادیار کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
اے چشم اشک بار ذرا دیکھ تو سہی
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا ہی گھر نہ ہو