کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 314
یَکُوْنُ سَائِرَ عَمَلِہٖ عَلَی ذَلِکَ۔))[1] ’’ روز قیامت انسان سے سب سے پہلا سوال اس کے اعمال میں سے نماز کے متعلق ہوگا، اگر نماز درست ہوگی تو وہ کامیاب ہوگیا اورنجات پالی، اور اگر نماز میں کمی ہوگی،تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : دیکھو : میرے بندے کی کوئی نفل عبادت ہے ؟اس سے فرض میں رہ جانے والی کمی کو پورا کردیا جائے گا؛ اورپھر یہی معاملہ سارے اعمال کے ساتھ ہوگا۔‘‘ سفرہو یا حضر ، بیماری ہو یا صحت جو بھی حالت ہو، نمازکی ہر حال میں حفاظت کریں ۔ جو لوگ نماز ضائع کردیتے ہیں ، ان کا ٹھکانہ جہنم کی ایک خاص وادی ’’غيِّ‘‘ نامی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ‎﴿٥٩﴾ (مریم :۵۹) ’’ ان کے بعد ایسے نالائق لوگ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کردیا،اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑگئے ،ان کو عنقریب جہنم میں ڈالا جائے گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلَّذِيْ تَفُوْتُہٗ صَلاَۃُ الْعَصَرِ، فَکَأَنَّمَا وُتِرَ أَھْلُہٗ وَمَالُہٗ۔))[2] ’’جس کی نماز عصر چھوٹ گئی ،گویا کہ اس کے اہل اور مال سب کچھ ضائع ہوگیا۔‘‘ یہ تو اس شخص کا حال ہے جس کی ایک عصر کی نماز ضائع ہوگئی ،اس آدمی کا کیا حال ہوگا جس نے ساری نماز یں چھوڑ رکھی ہیں ؟ وہ خود ہی سوچ لیں ۔
[1] الترمذی باب إن أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ ؍صحیح،برقم ۴۱۳۔ سنن النسائی باب المحاسبۃ علی الصلاۃ برقم ۴۶۵۔ [2] موطأ امام مالک باب جامع الوقوت ، برقم ۲۱۔ ابوداؤد باب في وقت صلاۃ العصر ، برقم ۴۱۴۔سنن الترمذي باب السہو عن وقت صلاۃ العصر برقم ۱۷۵۔