کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 306
اس کے مدبر ومتصرف کوگالی دینا ہے ؛ کیونکہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی چیز میں کوئی ردو بدل یا کمی وزیادتی ، یا خیر وشر نہیں ہوسکتے۔ پس جب زمانہ بھی اللہ ہی کے حکم سے چل رہا ہے تو پھر اس کو برا بھلا کہنا کیا معنی رکھتا ہے ، وہ نہ نفع کا مالک ہے نہ نقصان کا۔ اپنے کرتوتوں اوراعمال پر نظرثانی کیجیے؛ اور اپنے گناہوں پر توبہ و استغفار کریں ۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۱۔ جلد بازی :
جلدبازی خواہ خیر کے کام میں ہو یا کسی دوسرے کام میں ، کسی طرح بھی اچھی نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو وحی کے پڑھنے میں جلد بازی کرنے سے منع کردیا ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ (القیامہ:۱۶)
’’ اور اپنی زبان کو جلدی حرکت نہ دیجیے تاکہ آپ اسے حاصل کرنے میں جلدی کریں ۔ ‘‘
یہ حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن جیسی بابرکت اور خیر والی کتاب حاصل کرنے کے لیے اسے جلدی جلدی پڑھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھادیا کہ اس قرآن کو آپ کے دل پر جمع کرنا ،اور پھر آپ سے بیان کروانا ہماری ذمہ داری لہٰذا آپ جلدی نہ کریں ۔
عام انسانوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا ﴿١١﴾ (الاسراء :۱۱)
’’اور انسان ہے ہی بڑا جلد باز۔ ‘‘
یعنی اس کی طبیعت میں جلد بازی ہے۔ وہ برائی مانگنے میں بھی ایسے جلد ی کرتا ہے ، جیسے طلب ِ خیر میں جلد بازی کرتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلتَّأَنِّيْ مِنَ اللّٰہِ وَالْعِجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ۔))[1]
[1] مسند الشامیین /حسن؛ شعب الإیمان برقم ۴۳۶۷۔ السنن الصغری ، باب التثبت في الحکم ، ح:۴۴۹۸۔ مسند اسحق بن راہویہ برقم ۴۹۴۔