کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 305
ذوق وشوق سے کرو گویاکہ آج کا دن ہی موقع ہے کچھ کرلیا جائے ، اور کل حساب دینا ہے۔ ‘‘
۱۰۔ وقت کو گالی دینا :
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللّٰهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ﴾(الانفال:۵۳)
’’ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس نعمت کو جو اس نے کسی قوم پر انعام کی ہر گز بدلنے والے نہ تھے جب تک وہ لوگ خود اس کو بدل نہ دیتے۔ ‘‘
وقت کاساتھ نہ دینے کاشکوہ کرنا، اسے گالی دینا ، ملامت کرنا،اور برا بھلا کہنا بھی ضیاعِ وقت کے بڑے اسباب میں سے ہے۔ یہ ایک ایسی غفلت ہے جس کے لیے بہت سے لوگوں کے ضمیر بیدار نہیں ہوتے۔ ان حرکات سے یہ گمان ہوتا ہے کہ وقت ان کا بہت بڑا دشمن اور ان کی امیدوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔لیکن یہ قسمت کا مارا اس بات سے لاعلم ہے کہ زمانے کا- بلحاظ وقت ہونے کے- اس کی قسمت، نفع ونقصان، ترقی یا پسماندگی اور اچھائی یا برائی کے حاصل ہونے سے کوئی تعلق نہیں ۔ بلکہ وقت اسباب کے اختیاریاترک کرنے کے ساتھ مربوط (بندھا ہوا) ہے۔ وقت کو گالی دینا راہ حق سے دوری اور محرومی ہے۔حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
((یُؤْذِیْنِيْ ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ ، بِیَدِيْ الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ۔))[1]
’’ابن آدم مجھے تکلیف دیتاہے ، وہ زمانے کو گالی دیتا ہے ، اور میں ہی زمانہ ہوں ، اور میرے ہی ہاتھ میں حکم ہے ، اور میں ہی رات ودن میں ردو بدل کرتا ہوں ۔‘‘
اس سے مراد یہ ہے کہ: انسان کا زمانے کو حوادثاتِ خیر وشر کی وجہ سے گالی دینا درحقیقت
[1] البخاری، باب : قولہ تعالی {یریدون أن یبدلوا کلام اللہ …} ح: ۷۰۵۳۔ مسلم ، باب النہي عن سب الدہر ، ح:۶۰۰۰ ۔