کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 304
ہے طلسم دہر میں صد حشر پاداشِ عمل آگہی غافل کہ یک امروز بے فردا نہیں واجب ہے کہ ہر انسان کو شش کرکے آج کے کام کو آج ہی ختم کرے۔ کیونکہ جو کام وقت پر آسانی سے کیا جا سکتا ہے ، وہ ہفتوں اور مہینوں تک پڑا رہنے سے وبالِ جان ، اور وحشت بن جاتاہے؛ پھر اس کام کو نبھانے کے تصور سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے ؛ یہاں سے انسان کی ہمت ٹوٹنی شروع ہوجاتی ہے۔ اورحقیقت میں یہ ایسا بوجھ بن جاتا ہے جس کو بسہولت اٹھانے کی مشقت انسان سے کبھی نہیں ہوسکتی۔ مثال کے طور پر ایک مزدور کو روزانہ آٹھ گھنٹہ کے حساب سے کام کرنا ہے۔ اور کام کا معیار اور مقدار مقرر ہے۔ اگر یہ مزدور دس دن تک اس کام کو انجام نہ دے ، تو دس دن کے بعد اسے یہی کام کرنے کے لیے کم از کم بارہ گھنٹے روزانہ کے حساب سے سولہ دن کی ضرورت ہوگی، جس کی تاب انسان میں نہیں ہے۔ اگر اس سے زیادہ مقدار بڑھ جائے تو ایسی تباہی ہے، جس کے احساس کی قبل ازوقت ضرورت ہے؛ لیکن ایسا کرے گا کون؟ آپ کا دن آج کا دن ہے کیونکہ یہ آپ کے ہاتھ اور تصرف میں ہے۔ جب صبح کا نور روشن ہو تو شام کا انتظار کرنا فضول ، اور جب شام ہوجائے تو صبح تک کی آس وتاخیر بے معنی۔ ہر کام کو اس کے وقت پر ، اور میسر وقت میں آسانی سے کر گزرو؛ جو گزر گیا، اس پر افسوس کرنے اور ندامت کے آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ؛ اور کل کا انتظار نہ کرو، کل کل تو ہو گا مگر شاید اس کل کا انتظار کرنے والا نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ (لقمان:۳۴) ’’ کوئی جی یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا،اور کوئی جی یہ نہیں جانتا کہ اسے کس سر زمین پر موت آئے گی۔‘‘ اس میسر اور موجود زندگی کے ایک ایک پل کو برسوں پر پھیلا دو اور بھلائی کے کام اس