کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 303
لہٰذا ایک مومن کو چاہیے کہ اللہ کی رحمت پر مکمل امید رکھتے ہوئے اپنے امور کو سرانجام دینے کی کوشش کرے ، ان اُمور کو ثمر آور کرنا اس ذاتِ بے نیاز کاکام ہے۔ سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے کہ دامانِ خیالِ یارچھوٹا جائے ہے مجھ سے نا امیدی کے من جملہ نقصانات میں سے چند ایک یہ ہیں : ٭ کفرانِ نعمت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری ہے۔ ٭ مایوسی ایمان میں کمزوری اور اللہ کی قدرت اور رحمت پر یقین نہ ہونے کی علامت ہے۔ ٭ نا امیدی سے انسان کی دنیا اور آخرت کے لیے کی گئی محنتیں اور کاوشیں ناکارہ ہوجاتی ہیں ۔ ٭ ناامیدی انسان کے لیے ایک خاموش قاتل ہے۔ جو اس کی صلاحیتوں کو ختم کردیتی ہے۔ ٭ نا امیدی انسا ن پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کھلی ہوئی نشانی اور ایک بڑی دلیل ہے۔ ٭ نا امیدی دنیا اور آخرت میں خسارے کا سبب بنتی ہے ۔ ۹۔کل کا فریب : لفظ کل ایک بہت بڑا دھوکہ ہے۔ خواہ کل آنے والا ہو یا گذشتہ۔ کل رفتہ کو ہم کسی بھی طرح واپس لا نہیں سکتے۔اور آئندہ کل کو ہم کل آنے سے پہلے پا نہیں سکتے۔ کیونکہ کل، کل ہی توہے ، اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری وساری رہے گا۔ بعض لوگ اس خیال سے کہ آنے والے وقت میں فراغت حاصل ہوگی، کام کا بوجھ ہلکا ہوگا ، اور اس کے نتیجہ میں وہ کام کو بطریق احسن انجام دے پائیں گے؛ اپنے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں مشاہدہ اس کے خلاف ہے۔ جیسے ہی انسان کی عمر بڑھتی ہے ، اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے ، اس کے تعلقات بڑھ جاتے ہیں ، اوقات تنگیٔ داماں کی شکایت کرتے ہیں ۔ انسانی طاقت ، قوت اور چستی میں کمی آجاتی ہے ؛ صحت بھی ساتھ چھوڑنے لگتی ہے ؛ واجبات اورمصروفیات سخت اور زیادہ ہوجاتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے جو کام آج بہترین طورپر انجام پاسکتا تھا، کل اس کی رسم پوری کرنے سے عاجزی کا اظہار ہوتاہے۔ بقول شاعر :