کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 302
جب کہ موت اس کی امیدوں کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے۔ ‘‘ کسی عقلمند کا کہنا ہے:جس انسان کی امیدیں لمبی(امکانیات اوروسائل سے متجاوز) ہوں ، اس کے عمل میں کمزوری آجاتی ہے۔ اور ہر آنے والی چیز قریب تر ہے۔ ‘‘ کسی نے کہا: اگر تم موت اور اس کی تلخی کو دیکھ لو تو لمبی خواہشات اور غرور وتکبر سب کچھ بھول جاؤ۔‘‘جب کہ ایک حکیم کا قول ہے : ’’ لوگوں میں سب سے بد حال وہ شخص ہے جس کی معرفت بہت وسیع ہو۔ اور اس کی قدرت کم ہو، اور ہمت پست ہو،اورامیدیں لمبی ہوں ۔‘‘ ۸۔ نا اُمیدی: جیسے خواہ مخواہ کی لمبی اور جھوٹی امیدیں رکھنا مذموم اور نقصان دہ ہے ، ایسے ہی اللہ کی رحمت سے ناامیدی بھی گناہ کبیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ایک برائیوں کے دروازے کھول دیتی ہے،اور کمر ہمت توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ بہت ہی کم برائیاں ناامیدی کے برابر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ناامیدی کی بڑے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللّٰهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللّٰهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ‎﴿٨٧﴾ (یوسف:۸۷) ’’ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا ، سو بے شک کافروں کے علاوہ کوئی بھی اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتا۔‘‘ نا امیدی گمراہی اور جہالت کے دروازے کھول دیتی ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ قَالَ وَمَن يَقْنَطُ مِن رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ ‎﴿٥٦﴾ (الحجر:۵۶) ’’ اور اپنے پروردگار کی رحمت سے گمراہوں کے علاوہ کوئی بھی نا امید نہیں ہوتا۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’کبیرہ گناہوں میں سے بڑے گناہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا ، اور اللہ تعالیٰ کی آزمائش سے خود کو محفوظ سمجھنا ، اس کی رحمت سے نا امیدی اور مایوسی ہیں ۔ ‘‘[1]
[1] نضرۃ النعیم/بحث الیأس۔