کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 301
’’ آپ انہیں کھاتا ، نفع اٹھاتا اور جھوٹی امید میں مشغول چھوڑ دیجیے ، وہ خود ابھی جان لیں گے۔ کسی بھی بستی کو ہم نے ہلاک نہیں کیا مگر اس کے لیے مقررہ نوشتہ تھا۔ کوئی گروہ بھی اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے رہتا ہے۔ ‘‘ ٭ ﴿وَیُلْہِہِمُ الْأَمَلُ﴾: امام قرطبی فرماتے ہیں : ’’ دنیا کی حرص کرتے ہوئے اس پر گر جانا ،دنیا کی محبت اور آخرت سے رُوگردانی۔ ‘‘[1] علامہ مناوی رحمہ اللہ نے اس کا معنی لکھا ہے: ’’ کسی چیز کے حاصل ہونے کی توقع رکھنا۔ اور اکثر اس کا استعمال ایسی چیزوں کے لیے ہوتا ہے ، جس کا حاصل ہونا نا ممکن ہو۔ ‘‘[2] شاعر کہتا ہے: نہ پوری ہوئی ہیں امیدیں نہ ہوں یوں ہی عمر ساری گزر جائے گی حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ((أَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ثَلَاثَۃَ الأَعْوَادِ؛ فَغَرَسَ إِلَی جَنْبِہٖ وَاحِداً ، ثُمَّ مَشَی قَلِیْلاً، فَغَرَسَ الآخِرَ ، ثُمَّ مَشَی قَلِیْلاً، فَغَرَسَ الآخِرَ ، ثُمَّ قَالَ: ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ہَذَا؟ ہَذَا مَثَلُ ابْنِ آدَمَ وَاَجَلِہٖ وَأَمَلِہٖ،فَنَفْسُہٗ تَتَوَّقُ إِلَی أَمَلِہٖ ، وَیَخْتَرِمُہٗ أَجَلُہٗ دُوْنَ أَمَلِہٖ۔))[3] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ٹہنیاں لیں ، ایک کو اپنے پہلو میں گاڑ دیا، اور پھر کچھ چلے؛ تو دوسری ٹہنی گاڑدی، اور پھر چند قدم چلنے کے بعد تیسری ٹہنی بھی گاڑ دی۔ اور پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ یہ ابن آدم، اس کی اجل اور امیدوں کی مثال ہے۔ اس کا جی اسے خواہشات کی طرف لے کر جاتا ہے ،
[1] تفسیر قرطبی:۱۰؍۴۔ [2] توقیف ۶۲۔ [3] کتاب الزہد للوکیع: ۲/۴۳۷