کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 299
۵۔ ادھوراکام :
بسا اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی انسان کسی کام کوبڑے جذبات اور حدت و شدت کیساتھ شروع کرتا ہے، مگر وہ اسے انجام تک نہیں پہنچا پاتا، بلکہ اسے نامکمل چھوڑنے میں ہی عافیت اور بہتری محسوس کرتا ہے۔ یقینا یہ اس انسان میں عزیمت اور پختگیئِ ارادہ کی کمی ہے۔ جب انسان مکمل سوچ بچار کرلینے کے بعد کسی دینی یا دنیاوی کام کو درست نیت اور غرض سے شروع کرے، تو اسے چاہیے کہ اسے مکمل کرکے چھوڑے ،تاکہ مطلوبہ ہدف حاصل ہوجائے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی کام کو ادھورا چھوڑنے سے منع کیا ہے؛ فرمایا:
﴿ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾ (محمد:۳۳)
’’ اور اپنے اعمال کو غارت نہ کر و۔ ‘‘
یعنی جب کوئی کام شروع کیا ہے تو اسے پورا کرکے رہو، جب تک اس میں کوئی شرعی قباحت اور برائی نہ ہو۔ اور فرمایا:
﴿ وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا ﴾(النحل:۹۲)
’’ اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا۔ ‘‘
مثال بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جب محنت کا پھل پانے کا وقت آجائے ، اس وقت خودہی اپنے کیے پر کلہاڑی چلا دینا یقینا حماقت اور اپنے نفس کے ساتھ برا سلوک اوربڑا ظلم ہے۔
۶۔ فضول کام :
یعنی ایسے کام کرنا جن سے کوئی فائدہ نہ ہو۔اور نہ وہ کام مومن کے شایانِ شان ہوں ، بیہودہ اور لغو کام ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے کام کرنے سے منع کرتے ہوئے ان لوگوں کی تعریف کی ہے جو ان کاموں سے بچ کررہتے ہیں ، فرمایا: