کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 296
متعدد اور مختلف ہیں ؛ مگر چند ایک بکثرت واقع ہونے والے امور ، اور ان سے اجتناب کے طریق کار کو بیان کرنا مناسب ہوگا ، تاکہ ’’خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَدَلَّ ‘‘ کے مصداق نفع عام کے لیے راہ واضح ہوجائے۔ ان امور میں سے :
۱۔ غفلت :
غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان کا وقت کسی ایسے بے فائدہ کام میں یا بیکار گزرے جیسے چٹان کے لیے بارش بے فائدہ ہو تی ہے۔ نہ اسے اس کا کچھ احساس ہو، اور نہ وقت کی قیمت کا خیال۔ اور نہ ہی وقت سے فائدہ حاصل کرنے کا خیال دل میں آئے۔ اگر کسی کام کا خیال دل میں گزرا بھی تو سستی کی وجہ سے اسے کرنے سے قاصر رہا۔ امیدیں لمبی رکھیں لیکن ان کے حصول کے لیے جدو جہد اور کام میں صفر۔ ایسے لوگوں کے دن اور رات تو گزر جاتے ہیں مگر ایسے جیسے حیوانات کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ﴿٢٨﴾ (الکہف:۲۸)
’’ اور اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے ، اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے ، اور جس کاکام حدسے گزر چکا ہے۔ ‘‘
یہ اس لیے بیان کیا جارہا ہے تاکہ انسان اپنے گزرے ہوئے اوقات پر غوروفکر کرے۔ فکر کے یہ لمحات دل کی بیداری ہیں ۔ اس پر ندامت اور توبہ گزری ہوئی برائی کا ازالہ ہے۔ بقول اخترصادق :
آئے تھے جس کام کو یاں اس سے غافل ہوگئے
خواب ِغفلت میں جو دیکھا سب کو ہم بھی سو گئے
غفلت کے نقصان اور مذمت کے بیان میں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن کریم کی بائیس آیات میں غفلت کی مذمت ہوئی ہے۔ ان جملہ نقصانات کا خلاصہ یہ ہے :