کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 295
جوانی کے مرحلہ کو بطور خاص ذکر کرنا اس وجہ سے ہے کیونکہ یہ قوت و طاقت ، صحت و توانائی، چستی وبشاشت کا دور ہوتا ہے اور شباب کے دوران انسان میں مردانگی کا عنصر غالب ہوتاہے۔ گویا انسانی عمر کا سب سے زرخیز اور توانائی کا مرحلہ اس کی جوانی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کل کے اکثر نوجوان دل ودماغ سے خالی ، علم وعمل سے کورے، دین وایمان سے دور، ہر ایک پستی کا شکار ہیں ۔ انہیں فضول باتوں کے علاوہ کسی چیزکاکوئی علم وادراک نہیں ۔ شعر گوئی، گنگنانا، ایکٹرز اور ایکٹریسز کی اندھی تقلید اور ان کی مشابہت ان کا مشغلہ ہے۔ ان کیلئے خواہشات کی پیروی اور نفس پرستی کے علاوہ کوئی کام نہیں ۔لیکن یہ سب چار دن کی چاندنی ہے ، کل کو ان لمحات پر افسوس اور آہ وحسرت ہی کرنا ہے ۔ ہمارے ساتھ بھی وہی مرحلہ پیش آنا ہے جو پہلوں کے ساتھ آچکا ،جب جوانی اور اس ہمت کی تمنا ہی رہ جاتی ہے ، مگر یہ جوانی لوٹ کر نہیں آتی۔ غالب نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے :
مارا زمانے نے اسد اللہ خان تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
[۱۲]…ضیاعِ وقت سے اجتناب
وقت کا ہر لمحہ سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی ہے۔ اگر سونا اور چاندی ، دنیا کا خزانہ کھوجائے ،تو اسے محنت سے دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے ؛ مگر گیا وقت دوبارہ حاصل نہیں ہوتا۔ انسا ن کا ایک دن یا دن کا بعض حصہ اگر ضائع ہو جائے ، یا اس میں بعض شر انگیز اور دیگر بے معنی کام کیے جائیں تو صحیح معنوں میں وقت سے استفادہ کرنا ممکن نہیں رہتا۔
حقیقت میں ضیاعِ وقت ایک خاموش زہر قاتل ہے؛ جس سے انسان خود کو ہلاک کررہا ہے۔اور اس کا انجام افسوس اور ندامت کے سوا کچھ نہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ عمر کے ان لمحات کی بھر پور حفاظت کی جائے؛اور اس بات کا بھر پور خیال رکھا جائے کہ کوئی گھڑی بغیر کسی مقصد کے فوت نہ ہوجائے۔
وہ امور جن سے وقت ضائع ہوتا ہے بہت ہیں ؛ اور ان سے بچنے کے اسلوب بھی