کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 288
بات کا اظہار کررہا ہے کہ وہ ایسا کرنے کی قوت رکھتا ہے ، اور اسے یہی بوجھ برداشت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ایسے انسان کو فخور( شیخی خور ) کہتے ہیں ۔ ( نضرۃ النعیم۷؍۲۹۸۵) بلند ہمتی کی اہمیت : ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سالک کے لیے لازمی ہے کہ اس کی ہمت اتنی ہو کہ وہ (تربیت ِنفس کی )ان راہوں پر چلے اور آگے بڑھے ، اور اسے اتنا علم حاصل ہوکہ وہ اس سے بصیرت اور ہدایت پاسکے۔[1] بلند ہمت انسان پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے ، اور مشکل امورنبھانے میں اس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ۔ کہتے ہیں : ’’ بلند ہمت انسان حالات کے ہاتھوں خواہ کتنا ہی گر کیوں نہ جائے ، مگر وہ بلندی یعنی عظمت ورفعت کے علاوہ کسی اور چیز پر راضی نہیں ہوتا۔ اس کی مثال آگ کے اس شعلہ کی ہے کہ اسے اگر کوئی چھپانا بھی چاہے تو ممکن نہیں ہوتا ، بلکہ وہ بلند ہی ہوتا رہتا ہے۔ بلند ہمت لوگ ہی لوگوں کے رہنما اور ان کے لیے مثالی شخصیات ہوتے ہیں ۔ اور لوگ ان کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ افراد؛جماعتوں اور معاشروں کی تقدیر کو بدلنا صرف بلند ہمتی کا مرہون منت ہے۔ اسی صفت کی وجہ سے انسان دوسروں سے ممتاز ہوکر ان کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں آگے لے کر چلتا ہے ، اورقوموں کو پستیوں کے گڑھوں سے نکال کر عظمت کی بلندیوں تک پہنچادیتا ہے۔ کمزور کو طاقتور بناتا ہے ، مغلوب کو غلبے کی نوید دیتا ہے۔ اسی وجہ سے لوگوں میں عزت ومنزلت پاتا ہے۔ ایک شاعر کا کہنا ہے : یہ بزم ِ مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے بلند ہمتی کے میدان اور مواقع : ۱: اپنے وقت پر غیرت کہ اس کو بغیر فائدہ کسی چیز میں خرچ نہ کرے۔
[1] الہمۃ طریق إلی القمۃ ص ۲۷۔