کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 287
’’ کہو میں اللہ پر ایمان لایا ، اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ۔ ‘‘ ایک کام شروع کرنے پر جب اس کے انجام اور طریق کارکا پختہ علم ہو، اور حصول فائدہ متوقع ہو؛ پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی رہنا بلند ہمتی اور مستقل مزاجی کی علامت ہے۔ فرمان الٰہی ہے : ﴿ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ‎﴿١٥٩﴾ (آل عمران:۱۵۹) ’’ جب کسی کام کا پختہ ارادہ کرلو تو پھر اللہ پر توکل کروبیشک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ بلند ہمتی کی قسمیں : ہر انسان میں اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی صلاحیتیں اور توانائیاں ودیعت کر رکھی ہوتی ہیں جن کا بصیرت کے ساتھ استعمال کرنا اس کے بس میں ہوتا ہے۔ وہ آدمی جس میں بڑ ے کام کرنے کی ہمت ہو،اور وہ اس بات کا شعور بھی رکھتا ہوکہ وہ کوئی بھی بڑا کام کرسکتا ہے۔ اور وہ اعلی مراتب کو پانے کا عزم بھی رکھتا ہے،اور ان کوپانے کے لیے کوشش بھی کرتا ہے؛ ایسے انسان کو بلند ہمت کہا جاتاہے۔ یہی انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کی قدر اور احساس سے نوازاہے۔ ورنہ اسی چھ فٹ قد کے اورڈیڑھ دومن وزنی جسم کے مالک کروڑو ں لوگ ہیں جن میں صلاحیتیں تو ہوتی ہیں ،مگر وہ ان کا ادراک کرتے ہوئے بھی ان سے استفادہ کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔بلکہ بعض لوگ ایسی صلاحیتوں کا غلط استعمال کرکے اپنے خلاف اللہ کے ہاں حجت قائم کررہے ہیں ۔ وہ آدمی جس میں بڑے کام کرنے کی صلاحیت ہے ، مگر وہ اپنی تمام تر توانائی نیچ کاموں میں لگاتا ہے ؛ ایسے انسان کو کم ہمت یا پست ہمت کہا جاتا ہے۔ اور وہ آدمی جو کوئی بڑا کام کرنے کی ہمت تو نہیں رکھتا،اور وہ جانتا بھی ہے اس کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہے، مگر پھر بھی اپنی استعداد کے مطابق ہی کام کرنے کی کوشش کرتا ہے ،یہ انسان صاحب بصیرت اور متواضع کہلاتا ہے۔ ان کے علاوہ چوتھا وہ انسان ہے جو بڑے کام کرنے کا اہل نہیں ہے ؛ مگر وہ اس