کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 285
عَلَی قَدَرِ أَہْلِ الْعَزْمِ تَأْتِيَالْعَزَائِمُ
وَتَأْتِيْ عَلَی قَدَرِ الْکِرَامِ الْمَکَارِمُ
وَتَعْظَمُ فِيْ عَیْنِ الْصَغِیْرِ صِغَارُہَا
وَتَصْغَرُ فِيْ عَیْنِ الْعَظِیْمِ الْعَظَائِمُ
’’ عزیمت اہل عزم کے ارادوں کے مطابق ہی ملتی ہے؛ اور بزرگی بزرگو ں کی قدر کے مطابق ہی ملتی ہے۔ چھوٹے انسان کی نظر میں چھوٹا کام بھی بہت بڑا معلوم ہوتا ہے ، اور بڑے انسان بڑے کاموں کو بھی معمولی سمجھتے ہیں ۔ ‘‘
شرافت نفس:
ہمت کی کمی کے ساتھ نفس کی شرافت کا ہونا علوہمت کے ساتھ ذلت نفس سے بہتر ہے۔کیونکہ نفس کی خباثت اور رذلت کے ساتھ جس کی ہمت بلند ہو ، وہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرتے ہوئے ایسی چیز کا طلبگار بنتا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے، اورایسی چیز کی طمع کرتا ہے جو اس کو ملنے والی نہیں ۔ اس کے برعکس کم ہمتی کے ساتھ جس میں شرافت نفس ہو ، وہ اپنے استحقاق کو چھوڑنے والا اور جو اسے مل جائے اس پر راضی رہنے والا ہوتا ہے ، اس سے نہ کسی کے حق کی پامالی کا خطرہ ہے ، اور نہ کسی کو تکلیف کا اندیشہ۔ اس صورت میں ان دونوں میں جو فرق ہے وہ صاف ظاہر ہے۔ یعنی ایک اپنی قوت، ہمت اور ارادے کاغلط استعمال کررہا ہے ، جب کہ دوسرے کا معاملہ اس کے بر عکس ہے۔[1]
جاحظ کہتے ہیں :’’ کم ہمتی :بلند مرتبہ کی تلاش سے عاجزی اور نفس کی کمزوری کا نام ہے۔ امید کا انجام خیز نہ ہونا، آسان امور سے اپنے فضائل اور محاسن میں اضافہ نہ کرسکنا ، تھوڑی چیز کو بہت زیادہ سمجھنا ،درمیانے یا نچلے درجے کے کاموں پر راضی رہنا ، یہ سب کم ہمتی کی نشانی ہے۔ ‘‘2
بقول شاعر :
[1] ادب الدنیا و الدین للماوردی ۳۰۸۔