کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 283
روشن ہوتی ہے۔ اپنے بلند مقصد کے حصول کے مقابلہ میں ہر قسم کی مشکل کوہیچ یاکم تر سمجھنا، اور تمام سختیوں کا برداشت کرنا؛ یہ عین بلند ہمتی اور شرافت نفس ہے۔ اوریہی وہ منزلت ہے جس کوبلند ہمت اور پختہ عزم صمیم کے مالک ہی حاصل کرسکتے ہیں ۔‘‘ شیخ خضر حسین فرماتے ہیں : ’’ برزگ اور آزاد منش روحیں وہ ہیں جو دنیا اور آخرت کے امور میں سے صرف اس چیز پر قناعت نہیں کرتیں جو ان کے لیے آسان کردی گئی ؛ اورجس کے مواقع میسر ہیں ؛ بلکہ وہ اس سے بھی اعلی اورارفع منزل کی تلاش میں رہتے ہیں ۔‘‘[1] آدمیت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ پست ہمت یہ نہ ہووے، پست قامت ہو تو ہو اس کی ایک معمولی سی مثال یہ ہے کہ سیّدناحضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے بدر کے موقع پر اپنے چھوٹے بھائی عمیر بن ابو العاص رضی اللہ عنہ کودیکھا ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل لشکر میں ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے ؛ میں نے پوچھا : کیا بات ہے ؛کیوں چھپ رہے ہو؟ کہنے لگے : اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا تو مجھے واپس کردیں گے۔ اورایسا ہی ہوا ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس کردیا۔ ؛وہ بہت بری طرح رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ لشکر کے ساتھ چل پڑے۔ کم عمری کی وجہ سے وہ اپنی تلوار بھی صحیح طرح سے نہیں سنبھال سکتے تھے؛ ان کی تلوار کی نیام بار بار میں سنبھالتا تھا۔ ‘‘[2] ملاحظہ کیجیے : ان کی ہمت ان کی قوت اورتوانائی سے بڑھ کر ہے ،کیونکہ یہ جس منزل کی تلاش میں ہیں وہ اس ہمت کے بغیر نہیں ملتی خواہ جسم کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔اس لیے کہ انسان اپنی منزل خود پیدا کرتا ہے ، پھل محنت کے مطابق حاصل ہوتا ہے۔ ہمت دل کے ارادہ وعمل کا نام ہے۔ دل پر صاحبِ دل کے علاوہ کسی کی کوئی اجارہ داری نہیں ۔ بلند ہمت لوگ ہی زمانے کے ہر چیلنج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے اس کوقبول کرتے ہوئے انقلاب لاتے ہیں ،وہ زمانے کے تیور کے ساتھ خود نہیں بدلتے بلکہ زمانے کواپنے افکار اور امنگوں کے
[1] نضرۃ النعیم ۷ / ۲۹۸۴۔ [2] دیکھئے : الاصابہ ۶/۱۶۶۔