کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 280
کا ارادہ ہے ۔جو اس کے اندر کے انسان کو اجاگر کرتا ہے۔اس لیے کہ شعوری طور پر کیا جانے والا کام پہلے ذہن میں آتا ہے ، پھر اس کے لیے ارادہ بنتا ہے ، اور پھر اس کی جانب قدم بڑھتے ہیں ۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بڑے ارادے رکھنے والے انسان کا جسم بھی اسی حساب سے بڑا ہو۔ بلکہ بہت سارے لاغر اور نحیف جسموں کے مالک قوت ارادہ اور عزم میں کسی چٹان سے کم نہیں ہوتے ۔
انسان کے اندر وہ صلاحیتیں پوشیدہ ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خشکی ، سمندر اور فضاء سب مسخر کردیے ہیں ۔ اس مقام پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں اورنا ممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں جن کے ارادے مضبوط ہوں ، اور عزائم جواں ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ پر کامل اور غیر متزلزل ایمان ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ ﴿١٥٩﴾ (آل عمران:۱۵۹)
’’اور جب کسی کام کاعزمِ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک اللہ تعالیٰ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر
ہو طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
قوتِ ارادہ سے مراد اپنے دل کو کسی کام کے چھوڑ دینے یا اختیار کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار کرنا اورپھراس پر پوری شدت اور عزم کے ساتھ قائم رہناہے۔ جتنا ایمان مضبوط ہوگا، اتنا ہی ارادہ مضبوط اورعزم بلند ہوگا۔ مختلف قسم کی عبادات کو بروقت بجالا نا نفس کی تربیت اورقوت ارادہ بڑھانے کے لیے بطور ایک آلہ کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد قوتِ ارادہ کوچار چاند لگادیتی ہے۔ اورتوکل اس پر مہر درخشاں کا