کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 28
مگر وہ ان سے پہلو بچا کر ناقہ ٔ وقت پر سوار اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے۔ شیطانی بہکاوے اسے راہ ِسفر میں لہو و لعب کی طرف راغب کرتے ہیں مگر وہ ہر ایک سے منہ موڑ کر آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح حالات و واقعات کے اُتار چڑھاؤ اور زیست کے نشیب و فرازبھی اس سے متصادم ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنی نظریں بچاتے ہوئے عزم و جزم کے ساتھ محو سفر رہتا ہے ، یہ نشیب و فراز اس کے ارادوں کی پختگی اور رفتارکی سرعت اور اس کے تسلسل میں کوئی رخنہ اندازی نہیں کر پاتے۔
دنیامیں اپنی حیاتِ مستعار کو با معنی اور ثمر خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پیش نظر ایک ہدف ہو ، ایسا ہدف کہ جس کی صداقت اور قطعیتپر اس کا ذہن مکمل طور پر مطمئن ہو ، اس پر اس کے شعور و جدان اور ضمیر کی آواز پوری طرح اس کا ساتھ دے رہے ہوں ، اس بامقصد ہدف کا شعور اور یقین انسان کی رگ رگ میں خون کی طرح سما چکا ہو۔ کیونکہ با مقصد، با معنی اور متعین ہدف کا وجود ہی کسی بھی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز و ممتاز کرتا ہے۔ ورنہ انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اگر انسان کی زندگی میں مقصدیت آجائے تو وہ لازماً ایک مثالی زندگی کا حامل بن جائے گا۔ کیونکہ اس طرح وہ کامل ارتکازِ توجہ اور یک سوئی کے ساتھ چلتے چلتے اپنی منزل کو پا کر ہی دم لے گا۔
درحقیقت قادر مطلق اور خالق ِکون و مکان کی یہ ساری کائنات ’’وقت ‘‘ کی زنجیروں کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ سورج اور چاند کا طلوع و غروب ، صبح و شام کی نمود، وقت کے احساس کے مختلف عنوانات ہیں ۔جب رات کا اندھیرا چھا جاتا ہے تو یہ گویا فطرت کی جانب سے اس حقیقت کا خاموش اعلان ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کی گردشوں سے ایک گردش کم ہو گئی۔ پس دانش مند انسان وہ ہے جو اس کے بعد آنے والی صبح کی روشنی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کرے اور اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو جائے۔صبح کے وقت طلوعِ آفتاب کا عمل ہر انسان کو دو مواقع کے درمیان کھڑا کر دیتا ہے۔ ایک وہ موقع جو گزر گیا جب کہ دوسرا وہ موقع جو سامنے موجود ہے اور انسان کی ہمت آزمائی کا منتظر ہے۔ وقت کے لمحات کی