کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 278
اقْتَصَدَ۔)) [1]
’’ جس نے استخارہ کیا وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا ؛ اور جس نے مشورہ کیا اسے ندامت نہیں اٹھانا پڑتی، اور میانہ رو کبھی فقرمیں مبتلا نہیں ہوتا۔ ‘‘
ثالثاً: اس میں کارکنان کی حوصلہ افزائی ہے ، جس سے ان میں کام کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے ، اور جذبات بڑھتے ہیں ۔
رابعاً: اعلیٰ افسران اور نگران یا دیگر افراد کی دلجوئی ہے جس میں آپ کے اوپر والا آپ پر اور اس کام پر خوش رہے گا ، اور حسن انجام کی صورت میں وہ مزید حوصلہ افزائی کرے گا، اور غلط انجام کی صورت میں آپ پر ملامت نہیں آئے گی۔
حدیث شریف میں آتا ہے:
(( مَثَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضاً )) [2]
’’مؤمنین کی مثال ایک دیوار کی سی ہے جس کی ایک اینٹ دوسری کو مضبوط کرتی ہے ۔‘‘
اور یہ مثال اسی وقت صادق آسکتی ہے جب ہم ایک دوسرے مل کر اور باہمی مشورہ سے کام کریں گے ۔
۲۔ تجربات سے فائدہ :
درحقیقت مشاورت میں ہی آپس میں آرا وافکار اور مشاہدات وتجربات کا تبادلہ ء خیال ہوتا ہے، اور دوسروں کے تجربات اورمہارتوں سے فائدہ اٹھایا جاتاہے ، لہٰذا نئے سرے سے تجربات میں وقت اور مال ضائع ہونے سے بچ جاتاہے۔ کسی خیر خواہ نے بہترین مشورہ دیا تھا کہ : جب بھی کوئی کام کرو ، اپنے سے بڑوں سے مشورہ کرلو، نہ ہونے کی صورت میں
[1] اس کی تخریج ’’ انفرادی رائے اور عدم مشورہ‘‘ کے عنوان میں گزر چکی ہے ۔
[2] رواہ البخاری ؛ باب تعاون المؤمنین بعضہم بعضاً ؛ ح: ۶۰۲۶۔ مسلم فی البر والصلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین وتعاطفہم وتعاضدہم رقم ۲۵۸۵۔