کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 272
’’ مجھے پکارو، میں ہی تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘ اور حدیث قدسی میں ہے: (( أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ،وَأَنَا مَعَہٗ إِذَا دَعَانِيْ۔)) [1] ’’میں اپنے بندہ کے میرے متعلق حسن ظن کے پاس ہوں ، اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ ‘‘ دعا کے بعد جو امور ہمیں اپنی ذات کی تعمیر و اصلاح میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ، ان میں : ۱: ہر انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو؛ اس دینا میں بھی اور روزِ قیامت بھی اس کے متعلق ضرور سوال و جواب ہونے کا یقین ہو ۔عام الفاظ میں اسے روحانی تربیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ ۲: اپنے نفس کا احترام، اپنی صلاحیت پر اعتماد، اور مزید صلاحیت پیدا کرنے کیلئے کوشش۔ جس انسان کے اندر جتنی صلاحیت ہوگی،اورجتنے اعتماد سے کام کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسے اسی قدر اس کے ثمرات سے نوازیں گے ۔ ۳: دوسرے کے بہتر اور اچھے کام پر رشک و خوشی اور اس کی تعریف اور ہمت افزائی ، اور اپنے اعمال کو اس سے آگے بڑھانے کی کوشش۔ اور حسد سے ہر طرح سے مکمل اجتناب ؛کیونکہ حسد سے کارکردگی کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ ۴: اُمورِ آخرت میں غور وفکر ، اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر یقین جو اس نے نیک کاروں کے ساتھ کر رکھا ہے ؛ اس وعدہ کے مصداق کو پالینے کے لیے ظاہری جائز شرعی اسباب کا انتخاب اور اختیار ۔ ۵: اس دنیا کی فانی زندگی کا آخرت کی ہمیشہ رہنے والی ز ندگی سے موازنہ ؛اور ہر ایک کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق عمل۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] متفق علیہ۔ أخرجہ البخاري ، باب: {یحذرکم اللہ نفسہ } ح: ۶۹۷۰۔ مسلم فی الذکر والدعاء والتوبۃ باب الحث علی ذکر اللہ تعالی، ح:۲۶۷۵۔