کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 271
((اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَیْرٌ وَأَحَبٌ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ وَفِيْ کُلٍّ خَیْرٌ؛ اِحْرِصْ عَلَی مَا یَنْفَعُکَ وَ اسْتَعِنْ بِاللّٰہِ۔))[1] ’’ طاقت ور مومن اللہ کے ہاں کمزور مؤمن سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے، اگرچہ ان میں سے ہر ایک میں خیر ہے؛ اور اس چیز کی حرص کر جو تجھے فائدہ دے ؛ اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر ۔ ‘‘ اسی وجہ سے اسلام نے مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ((إِرْمُوا وَارْکَبُوْا ، وَأَنْ تَرْمُوْا أَحَبَّ إِلِيَّ مِنْ أَنْ تَرْکَبُوْا۔))[2] ’’ تیر ندازی اور گھڑ سواری کرو، اور یہ کہ تم تیر اندازی کرو یہ میرے نزدیک گھڑ سواری سے زیادہ محبوب ہے۔ ‘‘ پہلی حدیث میں طاقت اور قوت سے مراد عزائم کی طاقت اور پختگی ہے۔ ذاتی شخصیت کی تعمیر اور قوت کے حصول کے لیے چند ایک امور نا گزیر ہیں ۔ جن میں : سب سے پہلا کام اللہ تعالیٰ سے ہروقت دعا کرنا کہ وہ ان لوگوں میں سے بنا دے ، جو خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور ان کی کوئی گھڑی بیکار نہیں گزرتی، اور کامیابی جن کے قدم چومتی ہے۔ کیونکہ دعا ہی مومن کا اصل ہتھیار اور سرمایہ ہے۔ اور اسے تمام جدو جہد پر فضیلت اور سبقت حاصل ہے۔ اس لیے کہ ہم جس سے مانگ رہے ہیں وہی اصل توفیق دینے والا، برکت دینے والا، اور تمام بھلائیوں کی راہیں آسان کرنے اور ہر چھوٹے بڑے کام میں کامیابی سے ہمکنار کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ﴾(المؤمن:۶۰)
[1] مسلم ؛ باب : في الأمر بالقوۃ و ترک العجز، ح: ۶۹۴۵۔صحیح ابن حبان ، باب: مایکرہ من الکلام و ما لا یکرہ ؛ خ: ۵۷۲۱۔ [2] المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب الجہاد ، ح: ۲۴۶۷۔المعجم الکبیر للطبراني ، ح: ۹۴۱۔ وکذلک الاداب للبیہقی۔