کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 270
فرماتے ہیں ۔ مگر اسے وہ محسنین کا ثواب تو نہیں مل پاتا۔ یہی وہ وقت کا خسارہ ہے جس کی تلافی کے لیے تمام تر مساعی بروئے کار لائی جارہی ہیں ۔
بہت خوش نصیب ہے وہ شخص جواس سخت حساب کا سامنا کرنے کیلئے تیاری کرتا رہتا ہے۔ اور بد نصیب وہ انسان ہے جو ان سب باتوں پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ان کا سامنا کرنے کی تیاری نہیں کرتا ۔
[۴]…ذاتی تربیت اور قوت
انسان کی منصوبہ بندی میں کامیابی اور مقررہ ہدف کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کے لیے عملی طور پر کام نہ کیا جائے۔ اور اس میں توانائی نہ صرف کی جائے۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ان توانائیوں کی نشاندہی نہ کردی جائے، جن کے ذریعے اس ہدف کا حصول ممکن ہو۔ انسان کی ذاتی توانائی اور قوت اس عمل کی بنیاد اور اصل ہے۔ اس کے علاوہ باقی تمام امور اس کے تابع ہیں ۔
اگر ذاتی قوت کمزور ہوگی ؛ یا کم استعمال کی وجہ سے تندرست نہ ہوگی، تو اس صورت میں نہ صرف اپنا ، بلکہ دوسرے لوگوں کے وقت کا بھی ایک بہت بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ یہاں پر ذاتی تربیت سے مراد عقلی ، علمی، ثقافتی، جسمانی اور خاص طور پر اس فن کی تربیت ومہارت ہے ، جس میں کام کرنے کا ارادہ ہے۔ جس پر روحانی تربیت ، عقیدہ وعبادت، حسن اخلاق اور محنت وکوشش نور علی نور ہے۔ یہ قوت وطاقت کی اہمیت ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی پرعظیم الشان فریضہ عائد کرتے ہوئے اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا حکم دیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ ﴾(مریم:۱۲)
’’ اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑ رکھو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: