کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 267
((رَوِّحُوا الْقُلُوْبَ سَاعَۃً بَعَدَ سَاعَۃٍ ، فَإِن الْقَلْبَ إِذَا أُکْرِہَ أَعْمٰی۔)) [1] ’’ اپنے دلوں کو وقفہ کے بعد آرام پہنچاؤ، بے شک اگر دل کو کسی چیز پر مجبور کیا جائے ، تو وہ اندھا ہوجاتا ہے۔ ‘‘ نیند اور آرام کا خیال نہ رکھنا ، بغیر کسی وقفہ کے اورآرام کیے بغیر مسلسل کام کرتے جانا ، یہ وقت سے حقیقی استفادہ نہیں ہے۔ کیونکہ انسان اس کی طاقت نہیں رکھتا، اور یہ چیز فطرتی اصولوں سے ٹکراؤ رکھتی ہے ؛ جس کے نتیجہ میں کمزور ی اور آخر کار ہلاکت رو پذیر ہوتی ہے۔ مثبت کے بجائے منفی نتائج سامنے آتے ہیں ؛جس میں دوہرا نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ بدن کو اس کا حق دیا جائے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ ؛ ارشاد ربانی : ﴿وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتَا﴾’’ اور ہم نے رات کو تمہارے لیے آرام دہ بنایاہے۔ ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ یعنی تمہارے بدن کے آرام کے لیے۔ ‘‘ وہ کام جو انتہائی انہماک کی وجہ سے صحت پر اثر انداز ہونے والا ہو، اورجس کی وجہ سے دوسرے وقت میں کئی ایک کام ادھورے رہ جائیں ، وہ کسی طرح بھی بہتر اور پسندیدہ نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَدْوَمَھَا وَإِنْ قَلَّ۔)) [2] ’’ اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو باقاعدگی کے ساتھ ہو، خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ جب ہم تندرست ہوتے ہیں تو اس کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ جسم میں
[1] الوقت عمار أو دمّار ص۲۱)یہ روایت حلیۃ الأولیاء ۳/۱۰۴ میں مجھے ان الفاظ میں ملی ہے : ’’روحواالقلوب تعي الذکر ۔‘‘ دل کو آرام دو، یاد کو تیز کرے گا۔ اور مسند شہاب۱/ ۳۹۳ میں ہے: ’’ روحوا القلوب ساعۃ بساعۃ ۔‘‘ اپنے دل کو گھڑی ایک گھڑی کے لیے آرام دیا کرو۔‘‘ [2] استقامت کے بیان میں اس کی تخریج گزرچکی ہے ۔