کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 265
کے لیے سہولت اور خدمت کا پیش کرنا اور ان کے کام آنا ہے۔ [1]
جہاد کرنا اور اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا یہ ہدف نہیں ہے۔ جہاد ایک وسیلہ ہے ، جب کہ ہدف زمین میں اللہ کے دین کا نفاذ اور اس کی سر بلندی ہے۔
وسائل میں اہم ترین وسیلہ دعا ہے ، جو آسمانوں کے دروازے کھول دیتی ہے ، اور عرش کو ہلا دیتی ہے۔فقط دعا ہے جو تقدیر کے فیصلوں کو بدل سکتی ہے، شاعر سے معذرت کے ساتھ :
دل سے جو دُعا نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( فَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَإِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ أَنْ یُّسْأَلَ )) [2]
’’اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، اللہ پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے ۔‘‘
۱۰۔ متبادل پر نظر:
کسی ایک ہدف کے حتمی تعین سے قبل انسان کو چاہیے کہ وہ مختلف چیزوں کے درمیان مقارنہ اور مقابلہ کرکے جائزہ لے ؛ کون سی چیز ، کون سا ہدف اور عمل افضل ہے۔جتنا زیادہ ممکن ہوسکے افضل ہی کو اختیار کرے۔ جب انسان ہدف متعین کر لے ،اور اس کیلئے مناسب وسائل بھی بروئے کار لائے؛ اب کامیابی کی امید تو قوی ہے ،لیکن اس کے باوجود ناکامی کا احتمال بھی ہے ؛ کیونکہ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اور کیا ہونا ہے ، غیب کا علم صرف اسی کوہے:
﴿ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ﴾(الانعام :۵۹)
’’ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ، انہیں سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
اس صورت میں ایسا متبادل ہدف ، یا مذکورہ ہدف کے لیے متبادل وسائل پر نظر ہونا
[1] تفصیل کے لیے دیکھیں : ’’ہمت و استقامت‘‘ تالیف از مصنف
[2] سنن الترمذي ، أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب انتظار الفرج۔ح:۳۵۸۱۔