کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 264
’’ اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو باقاعدگی کے ساتھ(دائمی) ہو، خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
۹۔ وسائل کا استعمال :
وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
﴿ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ﴿١٥﴾ (الملک:۱۵)
’’ وہ اللہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے پست کردیا ، سو اس کی راہوں میں چلو، اور اس کے رزق میں سے کھاؤ، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔‘‘
ہمیں زمین کی راہوں پر چلنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے مراد اُن وسائل کا اختیارکرنا ہے جن کا استعمال اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرایا ہے۔ ان میں سب سے اہم ترین وقت ہے، جو کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے کا ایک اہم ترین وسیلہ ہے۔ وقت کی بہت بڑی عظمت اوراہمیت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کی خدمت اور فائدے کے لیے مسخر کیا ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہے۔
وسائل سے مراد مطلوبہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ممکنہ اشیا ء اور طاقت کو استعمال میں لاناہے۔ عصر حاضر میں خرابی کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ لوگ ہدف اور وسیلہ میں فرق نہیں کر پاتے ؛ جس کی وجہ سے ہدف وسیلہ اور وسیلہ ہدف بن کر رہ جاتاہے۔کیونکہ جتنے ہی اہداف زیادہ ہیں ، وسائل بھی اتنے ہی زیادہ ہیں اور اب ان میں تمیز ناممکن ہوگئی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ : اگر کوئی بڑی ڈگری حاصل کرتا ہے ، یہ ڈگری اصل میں ہدف نہیں ہے۔ ہدف اس تعلیم کے حصول کے بعد عملی میدان میں عوام اور قوم کے لیے اعلیٰ خدمات پیش کرنا ہے۔ اور ڈگری حاصل کرنا اس ہدف تک پہنچنے کے لیے ایک وسیلہ ہے۔
انسان کی ملازمت خواہ وہ افسر ہو یا ما تحت ، یہ اصل ہدف نہیں ہے۔ اصل ہدف تو اپنی اقتصادی حالت کی بہتری کو برقرار رکھنا ہے ، یا اسے بہتر بنانا ہے۔ اور اس کا ہدف خلق ِخدا