کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 263
لفظوں میں یہ مراد ہے کہ کسی کام کو شروع کرنے کے بعد اس وقت تک ترک نہ کیا جائے جب تک اس کا مقصد پورا نہ ہوجائے۔ اور اس میں کامیابی کا حتمی فیصلہ نہ ہوجائے۔ استقامت یا مستقل مزاجی ایک بہت ہی بڑی نعمت اور تمام کامیابیوں کی اصل اساس ہے۔ اگر ایک کام شروع کیا گیا، اوراس میں وقتی طور پر ناکامی ہوگئی ، تو انسان کو حالات سے گھبرا کر اور مایوس ہو کر اسے ترک نہیں کردینا چاہیے ،بلکہ اس میں کامیابی کے لیے دوبارہ کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا ﴿١٦﴾ (الجن:۱۶)
’’ اور اگر وہ اپنی راہ پر استقامت سے رہتے ، ہم انہیں وافر مقدار میں شیریں پانی پلاتے۔ ‘‘
اور ایک موقع پراستقامت کاصلہ بیان کرتے ہوئے (انسان کی حوصلہ افزائی کے لیے) فرشتوں کے نزول کی بشارت دی، فرمایا :
﴿ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ ﴾(فصلت:۳۰)
’’ بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ، ان پر ملائکہ نازل ہوں گے۔ ‘‘
مقاصدکی بار آوری میں خصوصاً جب ہدف بھی نیک اوراچھا ہو، اخلاص بھی کامل ہو، تو استقامت ایک انتہائی اہم ترین وسیلہ ہے جوکہ اللہ کی مدد کے بعد کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ یا یوں سمجھ لیجیے کہ نیک اعمال پر ملنے والا انعام استقامت ہے ، اور ان اعمال کو بقا اور دوام بخشنے والی چیز استقامت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَحَبُ الأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَدْوَمَھَا وَإِنْ قَلَّ۔))[1]
[1] البخاری ،باب القصد والمداومۃ علی العلم ، ح: ۶۰۹۹۔مسلم ؛ ح: ۱۸۶۳ ۔