کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 259
فرناس عبد الباسط لکھتے ہیں :
’’افرادی یا اجتماعی طور پر کسی مستقبل کے کام کو شروع کرنے کے لیے اللہ پر توکل اور اس کی مشیت پر ایمان رکھتے ہوئے تمام مشروع وسائل کو بروئے کار لانا ، اور غیب پر ایمان رکھنا کہ اس کے جو بھی نتائج ہوں گے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر میں ہوں گے۔ ‘‘[1]
بشیر جمعہ صاحب لکھتے ہیں :
’’منصوبہ بندی مختلف مدتوں کی ہوتی ہے :
وسیع البنیاد منصوبہ بندی : اپنے مقاصد اوران کے حصول کے لیے متعینہ طریقہ ء کار کے مطابق کم از کم پانچ سال کے لیے اپنے آپ کو پابند کرنے کا نام ہے ۔ جیسے آپ دفتر میں ترقی کے لیے کوئی خاکہ بنائیں ، یا گھر کے حالات کے پیش نظر کسی اور نقطہ نظر سے کچھ اہداف مقرر کریں اور پھر پوری توجہ کے ساتھ (اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ) لگ جائیں ۔
درمیانی مدت کي منصوبہ بندی : ایک سال سے زائد اور تین سال تک کے لیے اپنے آپ کو پابند کرنے کو کہیں گے۔ جیسے کوئی طالب علم اپنی معاشی مجبوریوں کے باعث میٹرک یا انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کرکے ملازمت اختیار کرلے ، پھر وہ اگلے امتحانوں کی تیاری کرے ، تاکہ وسیع البنیاد منصوبہ بندی کے مقاصد کے حصول میں آسانی ہو۔
مختصر مدت کی منصوبہ بندی: ہفتہ وار اور ماہانہ فر ائض اور ذمہ داریوں کی ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بحسن و خوبی انجام دینے کا نام ہے ۔ یہ منصوبہ بندی انسان کو زیادہ متحرک کرتی ہے ، اور اس کا جائزہ لینا نسبتاً زیادہ آسان ہے ۔
[1] الإدارۃ الإسلامیۃ المنہج والممارسۃ / حزام بن ماطر ص۷۶۔