کتاب: تحفۂ وقت - صفحہ 258
’’ بیشک اللہ نہیں پسند کرتے مال کے ضائع کرنے کو، کثرت سے سوال کرنے کو ، اور قیل و قال( حیل و حجت )کرنے کو ‘‘ مثبت سوچ اور مثبت خواب مثبت انداز ِ فکر پیدا کرتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے خیالات کو حقیقت میں بدلا جاسکتا ہے۔ آپ کے ایسے خوابوں کو شرمندہء تعبیر کرنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ اور خیالات اور افکار کی طاقت اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب اعمال کے ساتھ اسے مکمل کیا جائے۔ اگر عملی دنیا میں قدم نہ اٹھائیں ، اور صرف سوچتے ہی رہیں تو ایسا سوچنا اپنے پیچھے صرف حسرت اور ندامت ہی چھوڑ کر جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ۔ اور بصیرت یہ بات کہتی ہے کہ اپنے ماضی کی غلطیوں کے ازالہ اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے ہمیں آج کچھ عملی طور پر کرنا ہوگا ۔ آج وہ فصل بونی ہوگی جس کے پھل سے کل ہم سابقہ قرض بھی چکا سکیں اور اپنے مستقبل کو بھی بہتر بناسکیں ۔ ۳۔ منصوبہ بندی: چھان بین کے بعدیہ فیصلہ کرنا کہ کسی کام کومقررہ وقت پر اور مطلوبہ معیار کے مطابق کیسے بروئے کار لایا جائے۔اپنے مقصد کا تعین ، اس کے حصول کے لیے مطلوبہ وقت اور وسائل کا تعین، اس کے اجزا اور تفاصیل سے آگاہی حاصل کرکے اس کے لیے مکمل پروگرام تیار کرنا۔ اس طرح کے طرز عمل کو بروئے کار لانے سے ہم اپنا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔ منصوبہ بندی سے مراد : اجتماعی کام کا وہ اسلوب جس میں اسباب اختیار کرتے ہوئے مستقبل میں پیش آنے والے تمام واقعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظریاتی اور ایمانی بنیاد ، اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہوئے ایک شرعی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔ یہ اللہ کی عبادت اور اس کائنات کی آباد کاری ہے۔‘‘[1]
[1] دراسۃ فی مجال الإدارۃ الإسلامیۃ ۸۵۔